کیا بائبل تعلیم آپکے طالبعلموں کے دل تک پہنچ رہی ہے؟
کیا بائبل تعلیم آپکے طالبعلموں کے دل تک پہنچ رہی ہے؟
جب نوجوان ایرک نے اپنے والدین کو بتایا کہ وہ یہوواہ کا گواہ نہیں رہنا چاہتا تو اُنکا دل ٹوٹ گیا۔ اُنہیں ایرک سے ایسی توقع نہیں تھی۔ جب وہ چھوٹا تھا تو خاندانی بائبل مطالعہ میں حصہ لیتا، مسیحی اجلاسوں پر جاتا اور کلیسیا کیساتھ ملکر منادی بھی کرتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ مسیحی طرزِزندگی کو پسند کرتا ہے۔ مگر جب وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا تو اُسکے والدین کو اس بات کا احساس ہوا کہ بائبل تعلیم اُسکے دل تک نہیں پہنچی تھی۔ یہ احساس اُن دونوں کیلئے بہت زیادہ دُکھ اور مایوسی کا باعث بنا۔
جب بائبل طالبعلم اچانک مطالعہ بند کر دیتے ہیں تو بیشتر لوگ اسی طرح کے احساسات کا تجربہ کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر اکثر لوگ خود سے پوچھتے ہیں، مجھے پہلے اس بات کا پتہ کیوں نہیں چلا؟ اس سے پیشتر کہ یہ سب کچھ واقع ہو، کیا یہ جاننا ممکن ہے کہ آیا بائبل تعلیمات ہمارے طالبعلموں کے دلوں تک پہنچ رہی ہیں یا نہیں؟ اس صورت میں ہم اس بات کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں کہ بائبل تعلیمات ہمارے اور ہمارے طالبعلموں کے دلوں پر اثر کر رہی ہیں؟ بیج بونے والے کی تمثیل میں یسوع مسیح نے ان سوالات کے جواب کا اشارہ دیا ہے۔
تعلیمات کو دل تک پہنچنا چاہئے
یسوع مسیح نے فرمایا: ”بیج خدا کا کلام ہے۔ مگر اچھی زمین کے وہ ہیں جو کلام کو سن کر عمدہ اور نیک دل میں سنبھالے رہتے اور صبر سے پھل لاتے ہیں۔“ (لوقا ۸:۱۱، ۱۵) اس سے پہلے کہ بائبل تعلیم ہمارے طالبعلموں میں پھل پیدا کرے، اُسے اُنکے علامتی دل میں جڑ پکڑنے کی ضرورت ہے۔ یسوع مسیح ہمیں یقیندہانی کراتا ہے کہ اچھی زمین میں بوئے جانے والے بیج کی مانند ایک بار جب الہٰی سچائی اچھے دل کو چُھو لیتی ہے تو یہ فوراً اثر کرتی اور پھلدار ثابت ہوتی ہے۔ ہمیں کیسے پھل کا منتظر ہونا چاہئے؟
ہمیں ظاہرداری کی بجائے، دلی رُجحانات پر غور کرنا چاہئے۔ محض عبادت کے ایک معمول پر چلتے رہنا اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ ایک شخص کے دل میں کیا ہے۔ (یرمیاہ ۱۷:۹، ۱۰؛ متی ۱۵:۷-۹) ہمیں ذرا گہرائی سے جانچنے کی ضرورت ہے۔ ایک شخص کی خواہشات، محرکات اور ترجیحات میں لازماً تبدیلی واقع ہونی چاہئے۔ اُس شخص کو نئی انسانیت پیدا کرنی چاہئے جو خدا کی مرضی کے عین مطابق ہے۔ (افسیوں ۴:۲۰-۲۴) مثال کے طور پر، جب تھسلنیکیوں نے خوشخبری سنی تو پولس بیان کرتا ہے کہ اُنہوں نے فوری طور پر اسے خدا کا کلام سمجھ کر قبول کر لیا۔ لیکن یہ اُنکا مستقل صبر، وفاداری اور محبت ہی تھی جس نے پولس پر ظاہر کِیا کہ خدا کا کلام اُنکے اندر ”تاثیر بھی کر رہا ہے۔“—۱-تھسلنیکیوں ۲:۱۳، ۱۴؛ ۳:۶۔
بِلاشُبہ، طالبعلم کے دل کی بات جلد یا بدیر اُسکے رویے سے آشکارا ہو جائیگی جیسےکہ ایرک کی مثال ظاہر کرتی ہے۔ (مرقس ۷:۲۱، ۲۲؛ یعقوب ۱:۱۴، ۱۵) افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی شخص کی بُری عادات کھل کر سامنے آنے تک شاید بڑی دیر ہو چکی ہو۔ سمجھداری تو یہ ہے کہ کسی بھی کمزوری کو اُس وقت پہچاننے کی کوشش کریں جب وہ ابھی روحانی طور پر ٹھوکر کا باعث نہیں بنی۔ ہمیں کسی نہ کسی طرح علامتی دل میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ مگر ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟
یسوع مسیح سے سیکھیں
یسوع مسیح دلوں کو پڑھنے کے قابل تھا۔ (متی ۱۲:۲۵) ہم میں سے کوئی ایسا نہیں کر سکتا۔ تاہم، اُس نے ہمیں سکھایا کہ کیسے ہم کسی شخص کی خواہشات، محرکات اور ترجیحات کو جان سکتے ہیں۔ جیسے ایک ماہر ڈاکٹر مریض کے دل کی بیماری کو جاننے کیلئے مختلف تشخیصی آلات استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح یسوع نے بظاہر نہ نظر آنے والے ”دل کے خیالوں اور ارادوں کو“ جانچنے اور کھینچ نکالنے کیلئے خدا کے کلام کو استعمال کِیا۔—امثال ۲۰:۵؛ عبرانیوں ۴:۱۲۔
مثال کے طور پر، ایک مرتبہ یسوع مسیح نے پطرس کو ایک ایسی کمزوری سے خبردار کِیا جو بعد میں ٹھوکر کا باعث بنی تھی۔ یسوع مسیح جانتا تھا کہ پطرس اُس سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یسوع مسیح نے پطرس کو ”بادشاہی کی کُنجیاں“ بھی سونپی تھیں۔ (متی ۱۶:۱۳-۱۹) تاہم، یسوع مسیح یہ بھی جانتا تھا کہ شیطان کی آنکھیں اُسکے رسولوں پر لگی ہوئی ہیں۔ مستقبل قریب میں وہ سخت دباؤ کا سامنا کرینگے۔ یسوع مسیح یہ بھی جانتا تھا کہ اُسکے بعض شاگردوں کا ایمان کمزور تھا۔ اسلئے وہ اس بات کی نشاندہی کرنے سے ہچکچایا نہیں تھا کہ اُنہیں کس چیز سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ غور کریں کہ اُس نے اس مسئلے پر کیسے گفتگو کی تھی۔
متی ۱۶:۲۱ بیان کرتی ہے: ”اُس وقت سے یسوؔع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اُسے ضرور ہے کہ . . . بہت دُکھ اُٹھائے اور قتل کِیا جائے۔“ غور کریں کہ یسوع نے بتانے کے علاوہ ظاہر بھی کِیا کہ کیا واقع ہونے والا ہے۔ غالباً اُس نے زبور ۲۲:۱۴-۱۸ اور یسعیاہ ۵۳:۱۰-۱۲ جیسی بائبل آیات استعمال کی ہوں جو ظاہر کرتی ہیں کہ مسیحا دُکھ اُٹھائیگا اور قتل کِیا جائیگا۔ بہرصورت، براہِراست صحائف سے پڑھنے یا اسکا حوالہ دینے سے یسوع مسیح نے پطرس اور دیگر کو اپنے دل کی بات بیان کرنے کا موقع دیا۔ اذیت کی بابت اُنکا ردِعمل کیسا ہوگا؟
اگرچہ پطرس بظاہر دلیر اور سرگرم نظر آتا تھا مگر اس موقع پر اُسکی بےباکی نے اُسکی ناقص سوچ کو ظاہر کِیا تھا۔ اُس نے یسوع سے مخاطب ہوکر کہا، ”اَے خداوند خدا نہ کرے۔ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔“ واضح طور پر، پطرس کا سوچنے کا انداز غلط تھا۔ وہ ”خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال“ کر رہا تھا۔ یہ ایک ایسی بڑی خامی تھی جو سنگین نتائج کا باعث بن سکتی تھی۔ اس پر یسوع نے کیا کِیا؟ پطرس کو ڈانٹنے کے بعد، اُس نے اُسے اور دیگر شاگردوں سے کہا: ”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔“ اُس نے زبور ۴۹:۸ اور ۶۲:۱۲ میں پائے جانے والے خیال کو استعمال کرتے ہوئے اُنہیں یاد دلایا کہ ہمیشہ کی زندگی انسان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔—متی ۱۶:۲۲-۲۸۔
اگرچہ بعدازاں پطرس وقتی طور پر ڈر گیا اور تین مرتبہ یسوع مسیح کا انکار کِیا توبھی یسوع کی اس باتچیت اور دوسرے شاگردوں نے اُسے دوبارہ روحانی طور پر مضبوط بننے میں مدد دی ہوگی۔ (یوحنا ۲۱:۱۵-۱۹) صرف ۵۰ دن بعد، پطرس یروشلیم میں بڑی دلیری کیساتھ لوگوں کے سامنے یسوع کے مُردوں میں سے زندہ ہونے کی بابت گواہی دینے لگا۔ آنے والے دِنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کے دوران اُس نے دلیری کیساتھ بارہا گرفتار کئے جانے، مار کھانے اور قیدوبند جیسی مشکلات برداشت کرتے ہوئے بےخوف وفاداری کی غیرمعمولی مثال قائم کی۔—اعمال ۲:۱۴-۳۶؛ ۴:۱۸-۲۱؛ ۵:۲۹-۳۲، ۴۰-۴۲؛ ۱۲:۳-۵۔
اس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ کیا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح نے پطرس کے دل کی بات نکلوانے اور ظاہر کرنے کیلئے کیا کِیا تھا؟ سب سے پہلے، اُس نے پطرس کی توجہ کسی تشویشناک نکتے پر دلانے کیلئے موزوں صحیفے کا انتخاب کِیا۔ اسکے بعد اُس نے پطرس کو دل سے جواب دینے کا موقع
دیا۔ آخر میں اُس نے ایسی صحیفائی مشورت فراہم کی جو پطرس کو اپنی سوچ اور احساسات میں تبدیلی لانے میں مدد دے سکتی تھی۔ آپ شاید سوچیں کہ میرے لئے اسطرح تعلیم دینا بہت مشکل ہے۔ لیکن آئیے دو ایسی مثالوں پر غور کریں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کیسے تیاری اور یہوواہ پر بھروسا ہمیں یسوع کے نمونے کی پیروی کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔دل کی بات جاننا
جب ایک مسیحی والد کو معلوم ہوا کہ اُسکے چھ اور سات سال کے دو لڑکوں نے اُستاد کی میز سے ٹافی چرائی ہے تو اُس نے بیٹھ کر اُنہیں سمجھایا۔ اسے محض بچگانا، بےضرر حرکت سمجھ کر نظرانداز کرنے کی بجائے، اُنکا والد بیان کرتا ہے، ”مَیں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اُنکے دل میں کیا ہے اور کس چیز نے اُنہیں یہ نازیبا حرکت کرنے کی تحریک دی ہے۔“
اُس نے اپنے بیٹوں سے کہا ذرا یاد کریں کہ عکن کیساتھ کیا واقع ہوا تھا جیسےکہ یشوع ۷ باب میں بیان کِیا گیا ہے۔ لڑکے فوراً بات کو سمجھ گئے اور اُنہوں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔ اُنکے ضمیر پہلے ہی اُنہیں تنگ کر رہے تھے۔ پس اُنکے باپ نے اُنہیں افسیوں ۴:۲۸ پڑھنے کیلئے کہا جس میں لکھا ہے: ”چوری کرنے والا پھر چوری نہ کرے بلکہ . . . ہاتھوں سے محنت کرے تاکہ محتاج کو دینے کیلئے اُسکے پاس کچھ ہو۔“ جب مَیں نے بچوں سے کہا کہ وہ ٹافی خرید کر اُستاد کو واپس کریں تو اس سے صحیفائی مشورت اُنکے ذہنوں میں اَور زیادہ نقش ہو گئی۔
اُنکا والد بیان کرتا ہے، ”بُرے محرکات کا علم ہو جانے پر ہم نے اُنہیں جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے اور بچوں کیساتھ استدلال کرکے اُنکی جگہ اچھے محرکات نقش کرنے کی بھرپور کوشش کی۔“ اپنے بچوں کو سکھانے کے سلسلے میں یسوع مسیح کی نقل کرتے ہوئے ان والدین کی کوششوں کے انجامکار اچھے نتائج نکلے۔ اُنکے دونوں بیٹوں کو بروکلن بیتایل میں یہوواہ کے گواہوں کے ہیڈکوارٹرز میں خدمت کرنے کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک گزشتہ ۲۵ سال سے وہاں خدمت کر رہا ہے۔
غور کریں کہ ایک دوسرے مسیحی نے اپنے بائبل مطالعے کی کیسے مدد کی۔ ایک طالبعلم اجلاسوں پر حاضر ہونے کیساتھ ساتھ خدمتگزاری میں بھی حصہ لے رہی تھی اور بپتسمہ پانے کی اپنی خواہش کا اظہار بھی کر چکی تھی۔ تاہم، وہ یہوواہ کی بجائے اپنے اُوپر زیادہ بھروسا کر رہی تھی۔ گواہ بیان کرتی ہے، ”ایک نوجوان لڑکی کے طور پر وہ بہت زیادہ آزاد ہو گئی تھی۔ مجھے فکر تھی کہ کہیں وہ اعصابی تناؤ یا روحانی تنزلی کا شکار نہ ہو جائے۔“
پس اس گواہ نے طالبعلم کیساتھ متی ۶:۳۳ پر باتچیت کرنے میں پہل کی۔ اُسکی حوصلہافزائی کی کہ اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرے، بادشاہی کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دے اور یہوواہ پر بھروسا کرتے ہوئے معاملات کو اُسکے ہاتھ میں چھوڑ دے۔ گواہ بہن نے اُس سے براہِراست سوال کِیا: ”کیا اکیلے رہنا بعضاوقات آپ کیلئے یہوواہ اور دوسرے لوگوں پر بھروسا کرنا مشکل بنا دیتا ہے؟“ طالبعلم نے تسلیم کِیا کہ اُس نے دُعا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اسکے بعد گواہ بہن نے اُسکی حوصلہافزائی کی کہ زبور ۵۵:۲۲ میں درج نصیحت پر عمل کرے۔ اسکے علاوہ اپنا بوجھ یہوواہ پر ڈال دے جیسے ۱-پطرس ۵:۷ ہمیں یقیندہانی کراتا ہے کہ ”اُسکو تمہاری فکر ہے۔“ ان الفاظ نے اُسکے دل پر گہرا اثر کِیا۔ گواہ بہن نے بیان کِیا: ”مَیں نے اُسے روتے دیکھا۔“
خدا کے کلام کو اپنے اندر تاثیر کرنے دیں
اپنے بائبل طالبعلموں کو ترقی کرتے دیکھنا خوشی بخشتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسروں کو مدد دینے کی ہماری کوششیں کامیاب ہوں تو اس یہوداہ ۲۲، ۲۳) ہم سب کو ”ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات“ کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ (فلپیوں ۲:۱۲) اس میں اپنے دلوں کو متواتر صحائف کی روشنی سے منور کرنا، ایسے رُجحانات، خواہشات اور جذبات کا جائزہ لینا شامل ہے جنہیں اصلاح کی ضرورت ہو سکتی ہے۔—۲-پطرس ۱:۱۹۔
کیلئے ضروری ہے کہ ہم بھی اچھا نمونہ قائم کریں۔ (مثال کے طور پر، کیا مسیحی کارگزاریوں کے سلسلے میں آپکا جوش پہلے کی نسبت کم ہو گیا ہے؟ مگر کیوں؟ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے اُوپر حد سے زیادہ بھروسا کرنے لگے ہیں۔ آپ کیسے اسکا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ حجی ۱:۲-۱۱ پڑھنے کے بعد دیانتداری کیساتھ سوچیں کہ یہوواہ وطن واپس لوٹنے والے یہودیوں سے کیسے استدلال کرتا ہے۔ اسکے بعد خود سے پوچھیں: کیا مَیں مالی تحفظ اور مادی آسائشوں کیلئے حد سے زیادہ فکرمند ہوں؟ اگر مَیں روحانی چیزوں کو پہلا درجہ دے رہا ہوں تو کیا مَیں اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں یہوواہ پر بھروسا کرتا ہوں؟ یا کیا مَیں یہ محسوس کرتا ہوں کہ مجھے خود ہی اپنی فکر کرنے کی ضرورت ہے؟ اگر آپکی سوچ یا احساسات میں ردوبدل کی ضرورت ہے تو ایسا کرنے سے بالکل نہ ہچکچائیں۔ متی ۶:۲۵-۳۳؛ لوقا ۱۲:۱۳-۲۱ اور ۱-تیمتھیس ۶:۶-۱۲ میں درج صحیفائی مشورت ہمیں مادی ضروریات اور اثاثوں کی بابت متوازن نظریہ قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اسطرح ہم یہوواہ کی برکت حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔—ملاکی ۳:۱۰۔
اپنی ذات کا ایسا مخلص جائزہ نہایت معقول ہو سکتا ہے۔ جب ہماری کمزوریوں یا خامیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے تو اسے تسلیم کرنا ہمارے لئے انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔ تاہم، جب آپ محبت کیساتھ اپنے بچے، بائبل طالبعلم یا خود اپنی مدد کرنے کیلئے پہل کرتے ہیں تو معاملہ خواہ کتنا ہی حساس کیوں نہ ہو آپ اپنی یا دوسرے کی زندگی بچانے کیلئے پہلا قدم اُٹھا رہے ہونگے۔—گلتیوں ۶:۱۔
اگر آپکی کوششیں زیادہ نتیجہخیز ثابت نہیں ہوتیں تو کیا ہو سکتا ہے؟ جلدی سے ہمت نہ ہاریں۔ ناکامل دل میں تبدیلی لانا ایک ایسا حساس اور پریشانکُن معاملہ ہے جس کیلئے وقت اور انتھک کوشش درکار ہے۔ لیکن یہ بااَجر ثابت ہو سکتی ہے۔
نوجوان ایرک جسکا شروع میں ذکر کِیا گیا تھا آخرکار راہِراست پر آ گیا اور پھر سے حق پر چلنے لگا۔ (۲-یوحنا ۴) وہ کہتا ہے، ”جب مجھے یہ احساس ہو گیا کہ مَیں نے کیا کھویا ہے تو مَیں واپس یہوواہ کی طرف لوٹ آیا۔“ اپنے والدین کی مدد سے ایرک اب دوبارہ وفاداری کیساتھ یہوواہ کی خدمت کر رہا ہے۔ اگرچہ شروع میں اُس نے اپنے والدین کی بات نہ مانی لیکن اب وہ اُنکی متواتر کوششوں کی بہت زیادہ قدر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ”میرے والدین بہت اچھے ہیں۔ اُنہوں نے ہمیشہ میرے لئے محبت ظاہر کی۔“
جنہیں ہم تعلیم دیتے ہیں اُنکے دلوں کو خدا کے کلام کی روشنی سے منور کرنا دراصل اُن کیلئے محبت کا اظہار ہے۔ (زبور ۱۴۱:۵) اپنے بچے اور اپنے بائبل طالبعلموں کے دل کو جانچتے رہیں تاکہ آپکو یہ پتہ چل سکے کہ آیا اُنکے اندر مسیحی شخصیت یعنی نئی انسانیت پرورش پا رہی ہے یا نہیں۔ ”حق کے کلام کو دُرستی سے کام میں“ لائیں اور یوں خدا کے کلام کو اپنی اور دوسروں کی زندگی میں تاثیر کرنے دیں۔—۲-تیمتھیس ۲:۱۵۔
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
یسوع مسیح کے الفاظ نے پطرس کی کمزوری کو آشکارا کِیا
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
دل کی بات جاننے کیلئے بائبل کا استعمال کریں