اولاد—ایک بیشقیمت میراث
اولاد—ایک بیشقیمت میراث
”دیکھو! اولاد خدا کی طرف سے میراث ہے اور پیٹ کا پھل اُسی کی طرف سے اَجر ہے۔“—زبور ۱۲۷:۳۔
۱. پہلے انسانی بچے کی پیدائش کیسے ہوئی؟
یہوواہ خدا نے جس طریقے سے پہلے مرد اور عورت کو خلق کِیا اور ان میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھی وہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ آدم اور حوا کی شادی کے بعد حوا کے رحم میں پہلے انسانی بچے نے نشوونما پانا شروع کر دی۔ (پیدایش ۴:۱) آدم اور حوا کے وقت سے لیکر آج تک بہتیروں کیلئے استقرارِحمل اور بچے کی پیدائش ایک معجزہ ہی ہے۔
۲. آپ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ماں کے رحم میں بچے کا نشوونما پانا ایک معجزہ ہے؟
۲ والدین کے اس رشتے سے وجود میں آنے والی یہ ننھی سی زندگی جو ابتدائی خلیے کے طور پر ماں کے رحم میں نشوونما پانا شروع کرتی ہے، تقریباً نو مہینوں میں کھربوں خلیوں پر مشتمل ایک بچے کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس ابتدائی خلیے میں ۲۰۰ سے زائد مختلف قسم کے خلیوں کو بنانے کیلئے ضروری ہدایات موجود ہوتی ہیں۔ انسانی سمجھ سے بالاتر ان ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے یہ پیچیدہ خلیے درست ترتیب کیساتھ ایک نئے زندہ انسان کو تشکیل دیتے ہیں!
۳. کیوں بہتیرے دانشور لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ خدا ہی انسانی بچے کی پیدائش کا ذمہدار ہے؟
۳ آپکے خیال میں درحقیقت کس نے بچے کو وجود بخشا ہے؟ یقیناً اُسی نے جو زندگی کا خالق اور مالک ہے۔ زبورنویس کہتا ہے: ”جان رکھو کہ [یہوواہ] ہی خدا ہے۔ اُسی نے ہم کو بنایا اور ہم اُسی کے ہیں۔“ (زبور ۱۰۰:۳) والدین اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس ننھی سی جان کو وجود بخشنے میں انکا کوئی کمال نہیں ہے۔ صرف لامحدود حکمت کا مالک یہوواہ خدا ہی ایک نئے انسان کی معجزانہ پیدائش کا ذمہدار ہو سکتا ہے۔ ہزاروں سال سے دانشور انسانوں نے خدا ہی کو ماں کے رحم میں پرورش پانے والے بچے کی زندگی کا ذمہدار ٹھہرایا ہے۔ تاہم، کیا آپ بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں؟—زبور ۱۳۹:۱۳-۱۶۔
۴. انسان میں کونسی ایسی کمزوری پائی جاتی ہے جو یہوواہ میں نہیں؟
۴ تاہم، کیا یہوواہ ایک بےحس خالق ہے جس نے محض ایک حیاتیاتی عمل شروع کِیا تاکہ مرد اور عورت اولاد پیدا کر سکیں؟ کچھ لوگ بےحس ہوتے ہیں لیکن یہوواہ ایسا نہیں ہے۔ (زبور ۷۸:۳۸-۴۰) بائبل زبور ۱۲۷:۳ میں بیان کرتی ہے: ”دیکھو! اولاد [یہوواہ] کی طرف سے میراث ہے اور پیٹ کا پھل اُسی کی طرف سے اَجر ہے۔“ آئیے اس بات پر غور کریں کہ میراث کیا ہوتی ہے اور یہ کیا ظاہر کرتی ہے۔
ایک میراث اور اَجر
۵. اولاد ایک میراث کیوں ہے؟
۵ میراث ایک بخشش کی مانند ہے۔ والدین اپنے بچوں کیلئے کوئی نہ کوئی میراث چھوڑنے کیلئے اکثر سخت محنت کرتے ہیں۔ اس میراث میں روپیہپیسہ، جائیداد یا کسی اَور قسم کے اثاثے شامل ہو سکتے ہیں۔ میراث میں خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو یہ والدین کی محبت کا ثبوت ہے۔ بائبل کہتی ہے کہ خدا نے والدین کو اولاد جیسی میراث سے نوازا ہے۔ اولاد اسکی طرف سے خوبصورت بخشش ہے۔ اگر آپ والدین ہیں تو کیا آپ اپنے کاموں سے ظاہر کرتے ہیں کہ آپ بچوں کو کائنات کے خالق کی طرف سے ایک بخشش خیال کرتے ہیں؟
۶. خدا نے انسانوں کو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کیوں عطا کی تھی؟
۶ خدا نے یہ بخشش اسلئے عطا کی تھی کہ آدم اور حوا ساری زمین کو اپنی پیدایش ۱:۲۷، ۲۸؛ یسعیاہ ۴۵:۱۸) یہوواہ نے لاکھوں فرشتوں کو انفرادی طور پر بنایا ہے لیکن اس نے انسانوں کے سلسلے میں ایسا نہیں کِیا۔ (زبور ۱۰۴:۴؛ مکاشفہ ۴:۱۱) اسکے برعکس، خدا نے انسان کو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کیساتھ خلق کِیا جو اپنے والدین جیسی خوبیوں کی مالک ہوگی۔ ماں اور باپ کیلئے یہ کتنا بڑا شرف ہے کہ وہ ایک نئے شخص کو دُنیا میں لائیں اور پھر اسکی نگہداشت کریں! والدین کے طور پر، کیا آپ یہوواہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے آپکو اس بیشقیمت میراث سے نوازا ہے؟
اولاد سے معمور کر دیں۔ (یسوع کے نمونے سے سیکھیں
۷. بعض والدین کے برعکس، یسوع نے کیسے ”بنیآدم“ میں دلچسپی اور ہمدردی ظاہر کی تھی؟
۷ افسوس کی بات ہے کہ تمام والدین بچوں کو ایک نعمت یا برکت خیال نہیں کرتے۔ بہتیرے اپنی اولاد کیلئے بہت کم ہمدردی ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے والدین یہوواہ یا اسکے بیٹے یسوع کے نمونے کی نقل نہیں کرتے۔ (زبور ۲۷:۱۰؛ یسعیاہ ۴۹:۱۵) اسکے برعکس، چھوٹے بچوں میں یسوع کی دلچسپی پر غور کریں۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ زمین پر بطور انسان آنے سے پہلے جب یسوع آسمان پر طاقتور روحانی مخلوق کے طور پر رہتا تھا تب بھی اسکی ”خوشنودی بنیآدم کی صحبت میں تھی۔“ (امثال ۸:۳۱) وہ انسانوں سے اتنی زیادہ محبت کرتا تھا کہ وہ اُن کیلئے اپنی جان دینے کیلئے بھی تیار تھا تاکہ انسان ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکیں۔—متی ۲۰:۲۸؛ یوحنا ۱۰:۱۸۔
۸. یسوع نے والدین کیلئے کیسے اچھا نمونہ قائم کِیا؟
۸ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے والدین کیلئے خاص طور پر ایک عمدہ نمونہ قائم کِیا۔ غور کریں کہ اُس نے کیا کِیا؟ بہت زیادہ مصروف ہونے اور تھکن کے باوجود اُس نے بچوں کیلئے وقت نکالا۔ اس نے بازاروں میں بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا اور ان واقعات کو تعلیم دیتے وقت استعمال کِیا۔ (متی ۱۱:۱۶، ۱۷) جب یسوع آخری مرتبہ یروشلیم کی طرف جا رہا تھا تو اُسے معلوم تھا کہ وہ دُکھ اُٹھائیگا اور قتل کِیا جائیگا۔ پس جب لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو اسکے پاس لائے تو یسوع کے شاگردوں نے بچوں کو اس سے دُور رکھنے کی کوشش کی تاکہ یسوع کو مزید پریشان نہ کِیا جائے۔ لیکن یسوع نے اپنے شاگردوں کو ڈانٹا۔ چھوٹے بچوں کیلئے اپنی ”خوشنودی“ کا اظہار کرتے ہوئے اُس نے کہا: ”بچوں کو میرے پاس آنے دو۔ اُنکو منع نہ کرو۔“—مرقس ۱۰:۱۳، ۱۴۔
۹. ہمارے کام ہماری باتوں سے زیادہ اہم کیوں ہے؟
۹ ہم یسوع کے نمونے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جب بچے ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم اُن کیساتھ کیسے پیش آتے ہیں؟ اُس وقت کی بابت کیا ہے جب ہم مصروف ہوتے ہیں؟ کیا ہم یسوع کی طرح کا ردِعمل دکھاتے ہیں؟ یسوع بچوں کو وقت اور توجہ دینے کیلئے تیار تھا۔ کیونکہ یہی وہ چیز ہے جسکی بچے والدین سے توقع کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ”مَیں تم سے پیار کرتا ہوں“ جیسے اظہارات بہت اہم ہیں۔ تاہم، آپ کا کام آپکی باتچیت سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔ آپکے پیار کا اظہار آپکی باتوں کی بجائے آپکے کاموں سے زیادہ ہوتا ہے۔ آپ اپنے بچوں کو وقت اور توجہ دیکر اور اُن کیلئے فکرمندی ظاہر کرنے سے اپنے پیار کا اظہار ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم، ہو سکتا ہے کہ اس سے آپکی توقع کے مطابق خاطرخواہ نتائج حاصل نہ ہوں۔ صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔ جس طریقے سے یسوع اپنے شاگردوں کیساتھ پیش آیا اگر ہم اسکی نقل کرتے ہیں تو ہم صبر کرنا سیکھ سکتے ہیں۔
یسوع کا صبر اور شفقت
۱۰. یسوع نے اپنے شاگردوں کو فروتنی کا درس کیسے دیا اور کیا اسکے فوری طور پر خاطرخواہ نتائج نکلے؟
۱۰ یسوع اپنے شاگردوں میں بڑا بننے کے سلسلے میں پائے جانے والے رُجحان سے واقف تھا۔ ایک روز، اپنے شاگردوں کے ساتھ کفرنحوم میں مرقس ۹:۳۳-۳۷) کیا اسکے خاطرخواہ نتائج نکلے؟ فوری طور پر نہیں۔ تقریباً چھ ماہ بعد، یعقوب اور یوحنا نے اپنی ماں کے ذریعے یسوع سے درخواست کی کہ وہ بادشاہت میں اُن دونوں کو کوئی نمایاں مرتبہ دے۔ یسوع نے دوبارہ اُنکی سوچ کو درست کِیا۔—متی ۲۰:۲۰-۲۸۔
آتے وقت اُس نے اُن سے پوچھا: ”تُم راہ میں کیا بحث کرتے تھے؟ وہ چپ رہے کیونکہ اُنہوں نے راہ میں ایک دوسرے سے یہ بحث کی تھی کہ بڑا کون ہے؟“ یسوع نے انہیں سختی سے ڈانٹنے کی بجائے بڑے تحمل کے ساتھ ایک مثال کے ذریعے فروتنی کا درس دیا۔ (۱۱. (ا) یسوع کیساتھ بالاخانہ میں پہنچ کر یسوع کے رسول خدمت کا کونسا رسمی کام انجام دینے میں ناکام رہے؟ (ب) یسوع نے کیا کِیا اور کیا اس وقت اُسکی کوششیں کامیاب ثابت ہوئیں؟
۱۱ جلد ہی ۳۳ س.ع. کی عیدِفسح آ گئی اور یسوع اسے منانے کیلئے اپنے رسولوں کیساتھ ایک الگ جگہ چلا گیا۔ بالاخانہ میں پہنچ کر، ۱۲ رسولوں میں کسی ایک نے بھی دوسروں کے گردآلود پاؤں دھونے کی رسمی خدمت انجام دینے میں پہل نہ کی۔ کیونکہ یہ کام گھر کا کوئی نوکر یا خادمہ کرتی تھی۔ (۱-سموئیل ۲۵:۴۱؛ ۱-تیمتھیس ۵:۱۰) اس بات سے یسوع کو کتنا دُکھ ہوا ہوگا کہ اسکے شاگرد ابھی تک حیثیت اور مرتبے کے پیچھے بھاگ رہے تھے! پس یسوع نے ان میں ہر ایک کے پاؤں دھوئے اور پھر بڑے خلوص سے اپنے شاگردوں سے درخواست کی کہ وہ بھی دوسروں کی خدمت کرنے کے اُسکے نمونے پر چلیں۔ (یوحنا ۱۳:۴-۱۷) کیا اُنہوں نے ایسا کِیا؟ بائبل بیان کرتی ہے کہ اسی شام بعدازاں ”اُن میں یہ تکرار بھی ہوئی کہ ہم میں سے کون بڑا سمجھا جاتا ہے؟“—لوقا ۲۲:۲۴۔
۱۲. اپنے بچوں کی تربیت کرنے کیلئے والدین کیسے یسوع کی نقل کر سکتے ہیں؟
۱۲ جب آپکے بچے آپکی مشورت پر عمل نہیں کرتے تو کیا آپ بطور والدین سمجھ سکتے ہیں کہ یسوع نے اُس وقت کیسا محسوس کِیا ہوگا؟ لیکن غور کریں کہ اگرچہ رسول اپنی کمزوریوں کی اصلاح کرنے میں بہت سُست تھے توبھی یسوع اُن سے نااُمید نہیں ہوا تھا۔ اسکا صبر بالآخر رنگ لایا۔ (۱-یوحنا ۳:۱۴، ۱۸) اَے اولاد والو! آپکو بھی یسوع کی محبت اور صبر کی نقل کرنی چاہئے اور اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں اپنی کوششوں سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔
۱۳. جب بچہ کوئی سوال پوچھتا ہے تو والدین کو اُسے کیوں ڈانٹنا نہیں چاہئے؟
۱۳ نوجوانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اُنکے والدین ان سے پیار کرتے اور ان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یسوع جاننا چاہتا تھا کہ اسکے شاگرد کیا سوچتے ہیں۔ لہٰذا، جب اُنہوں نے سوال کئے تو اس نے توجہ سے انکی بات سنی۔ اس نے ان سے پوچھا کہ وہ بعض معاملات کی بابت کیا سوچتے ہیں۔ (متی ۱۷:۲۵-۲۷) جیہاں، اچھی تعلیم میں توجہ سے سننا اور حقیقی دلچسپی ظاہر کرنا شامل ہے۔ جب بچے والدین سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں تو اُنہیں ڈانٹ کر بھگا دینے سے یا یہ کہنے سے گریز کریں کہ ”تمہیں نظر نہیں آتا مَیں کتنا مصروف ہوں؟“ اگر والدین واقعی مصروف ہیں تو بچے کو بتانا چاہئے کہ اس مسئلے پر بعد میں بات کرینگے۔ لیکن بعد میں اس پر بات کرنا نہ بھولیں۔ اسطرح، بچہ سمجھ جائیگا کہ والدین اس میں واقعی دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ خوشی سے انکو اپنے دل کی بات بتائیگا۔
۱۴. والدین اپنے بچوں کیلئے محبت دکھانے کے سلسلے میں یسوع کے نمونے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۴ کیا والدین اپنے بچوں کو اپنی بانہوں میں لیکر یا انہیں گلے لگاکر اپنی محبت کا اظہار کر سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں بھی والدین یسوع کے نمونے سے سیکھ سکتے ہیں۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”اُس نے انہیں اپنی گود میں لیا مرقس ۱۰:۱۶) آپکے خیال میں بچوں کو کیسا لگا ہوگا؟ یقیناً بچے خوش ہوکر یسوع کی طرف راغب ہوئے ہونگے! اگر والدین اور انکے بچوں میں حقیقی اُلفت اور محبت پائی جاتی ہے تو بچے والدین کی تعلیموتربیت کیلئے خوشی سے جوابیعمل دکھائینگے۔
اور ان پر ہاتھ رکھ کر انکو برکت دی۔“ (بچوں کیساتھ کتنا وقت صرف کرنا چاہئے؟
۱۵، ۱۶. بچوں کی پرورش کے سلسلے میں کونسا نظریہ مقبولِعام ہے اور کس چیز نے اس نظریے کی حوصلہافزائی کی ہے؟
۱۵ بعض نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ آیا بچوں کو واقعی اپنے والدین سے وقت اور پُرمحبت توجہ کی ضرورت ہے۔ بچوں کی پرورش کرنے کے سلسلے میں ایک نظریے پر بڑا زور دیا جا رہا ہے۔ اس نظریے کو معیاری وقت کا نام دیا جاتا ہے۔ اسکے حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ بچوں کو اپنے والدین سے اتنے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بشرطیکہ جو وقت آپ ان کیساتھ گزارتے ہیں وہ بامقصد طریقے سے اور خوب سوچسمجھ کر اور پیشگی منصوبہسازی کیساتھ گزارا جاتا ہے۔ کیا معیاری وقت کے نظریے میں نوجوانوں کی فلاح کا خیال رکھا گیا ہے؟
۱۶ کئی بچوں سے بات کرنے کے بعد ایک مصنف کہتا ہے کہ جس چیز کی ”انہیں اپنے والدین سے زیادہ ضرورت ہے وہ زیادہ وقت اور پوری توجہ ہے۔“ ایک کالج کے پروفیسر نے بیان کِیا: ”اصطلاح [معیاری وقت] درحقیقت والدین کے بچوں کو مناسب وقت دینے میں ناکام رہنے کی وجہ سے ایجاد ہوئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسطرح لوگ اپنے بچوں کیساتھ کم سے کم وقت صرف کرنے کا عذر پیش کر رہے تھے۔“ والدین کو اپنے بچوں کیساتھ کتنا وقت صرف کرنا چاہئے؟
۱۷. بچوں کو اپنے والدین سے کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے؟
۱۷ بائبل اس کی بابت کوئی حتمی اُصول وضع نہیں کرتی۔ تاہم، اسرائیلی والدین کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ بچوں کیساتھ اپنے گھر میں، راہ چلتے وقت، سوتے وقت اور اُٹھتے وقت باتچیت کِیا کریں۔ (استثنا ۶:۷) اسکا مطلب ہے کہ والدین کو بچوں کی تربیت کرنے اور اُنہیں تعلیم دینے کیلئے متواتر رابطہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
۱۸. یسوع نے اپنے شاگردوں کی تربیت کرنے کیلئے کیسے مختلف موقعوں سے فائدہ اُٹھایا اور والدین اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۸ یسوع نے اپنے شاگردوں کی کامیابی سے تربیت کی۔ اُس نے ان کیساتھ کھانا کھاتے وقت، سفر کرتے وقت اور آرام کرتے وقت اُنہیں تعلیم دی۔ اُس نے انہیں تعلیم دینے کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھایا۔ (مرقس ۶:۳۱، ۳۲؛ ۸:۱؛ لوقا ۲۲:۱۴) اسی طرح سے، مسیحی والدین کو بھی اپنے بچوں کیساتھ اچھا رابطہ رکھنے اور اُنہیں یہوواہ کی راہوں کی تعلیم دینے کیلئے ہر موقع کو استعمال کرنا چاہئے۔
کیا سکھائیں اور کیسے سکھائیں
۱۹. (ا) بچوں کیساتھ وقت گزارنے کے علاوہ اور کیا چیز ضروری ہے؟ (ب) والدین کو بنیادی طور پر اپنے بچوں کو کیا سکھانے کی ضرورت ہے؟
۱۹ کامیابی کیساتھ بچوں کی پرورش کرنے کے لئے اُن کیساتھ کیا سکھایا جا رہا ہے۔ غور کریں کہ بائبل اسکی بابت کیا بیان کرتی ہے، ”یہ باتیں جنکا حکم آج مَیں تجھے دیتا ہوں . . . تُو انکو اپنی اولاد کے ذہننشین کرنا۔“ ”یہ باتیں“ کونسی ہیں جنکی بچوں کو تعلیم دی جانی چاہئیں؟ بِلاشُبہ، یہ وہ باتیں ہیں جنکا ذکر اس سے پہلے کِیا گیا ہے۔ ”تُو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند [یہوواہ] اپنے خدا سے محبت رکھ۔“ (استثنا ۶:۵-۷) یسوع نے کہا کہ یہ خدا کے سب حکموں میں سے اہم ہے۔ (مرقس ۱۲:۲۸-۳۰) بنیادی طور پر والدین کو اپنے بچوں کو یہوواہ کی بابت سکھانے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ بھی ضرور بتائیں کہ کیوں یہوواہ ہی ہماری دلوجان سے محبت اور عقیدت کا مستحق ہے۔
وقت گزارنا اور انہیں تعلیم دینا ہی کافی نہیں ہے۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اُنہیں۲۰. خدا نے موسیٰ کے زمانے کے والدین کو اپنے بچوں کو کیا سکھانے کا حکم دیا تھا؟
۲۰ تاہم، ”یہ باتیں“ جو والدین کو اپنے بچوں کو سکھانے کی تاکید کی جاتی ہے اس میں محض اپنی مانند خدا سے محبت کرنے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ آپ غور کرینگے کہ استثنا کی کتاب کے پچھلے باب میں موسیٰ نے دس حکموں کو دہرایا تھا جو خدا نے پتھر کی لوحوں پر لکھے تھے۔ ان حکموں میں جھوٹی گواہی نہ دینا، چوری نہ کرنا، خون نہ کرنا اور زنا نہ کرنا شامل تھا۔ (استثنا ۵:۱۱-۲۲) پس، اُس زمانے کے والدین کو تاکید کی گئی تھی کہ اخلاقی قدریں بھی اپنے بچوں کے ذہننشین کریں۔ آجکل کے مسیحی والدین بھی اگر چاہتے ہیں کہ اُنکے بچوں کا مستقبل محفوظ اور خوشحال ہو تو انہیں اپنے بچوں کو ایسی ہی ہدایات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
۲۱. خدا کے کلام کو بچوں کے ”ذہننشین“ کرنے کا کیا مطلب تھا؟
۲۱ غور کریں کہ والدین کو بتایا گیا تھا کہ انہیں ”یہ باتیں“ یا احکام اپنے بچوں کو کیسے سکھانے ہیں: ”تُو انکو اپنی اولاد کے ذہننشین کرنا۔“ لفظ ”ذہننشین“ کرنے کا مطلب ”بار بار دُہرائی کرنے یا نصیحت کرنے سے سکھانا: حوصلہافزائی کرنا یا دماغ میں کسی بات کو بٹھانا“ ہے۔ پس خدا درحقیقت والدین کو یہ کہہ رہا ہے کہ وہ بائبل تعلیم کا ایک جامع پروگرام تشکیل دیں جسکا خاص مقصد روحانی معاملات کو اپنے بچوں کے ذہنوں میں نقش کرنا ہے۔
۲۲. اسرائیلی والدین کو اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے سلسلے میں کیا حکم دیا گیا تھا اور اسکا کیا مطلب تھا؟
۲۲ ایسا جامع پروگرام ترتیب دینے کیلئے والدین کو پہل کرنے کی ضرورت ہے۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”تُو نشان کے طور پر انکو [”یہ باتیں“ یا خدا کے احکام] اپنے ہاتھ پر باندھنا اور وہ تیری پیشانی پر ٹیکوں کی مانند ہوں۔ اور تُو انکو اپنے گھر کی چوکھٹوں اور اپنے پھاٹکوں پر لکھنا۔“ (استثنا ۶:۸، ۹) اسکا یہ مطلب نہیں کہ والدین کو حقیقت میں خدا کے احکام کو اپنے گھر کی چوکھٹوں یا دروازوں پر لکھنا یا اپنے بچوں کے ہاتھوں یا ماتھے پر تعویذ بنا کر باندھنا ہے۔ اسکے برعکس، اسکا مطلب یہ ہے کہ والدین کو ہمیشہ اپنے بچوں کو خدا کی تعلیم دیتے رہنا چاہئے۔ بچوں کو باقاعدگی اور مستقلمزاجی کیساتھ تعلیم دینی چاہئے تاکہ خدا کی تعلیمات ہر وقت بچوں کی نظروں کے سامنے رہیں۔
۲۳. اگلے ہفتے کے مطالعے میں کن سوالوں پر باتچیت کی جائیگی؟
۲۳ کونسی ایسی خاص باتیں ہیں جو والدین کو اپنے بچوں کو سکھانی چاہئیں؟ آجکل بچوں کو اپنی حفاظت کرنے کی تعلیموتربیت دینا اتنا اہم کیوں ہے؟ والدین کو اپنے بچوں کو عمدہ طریقے سے تعلیم دینے کیلئے اس وقت کونسی مدد دستیاب ہے؟ بہتیرے والدین کو پریشان کرنے والے اسی طرح کے دیگر سوالوں پر اگلے مضمون میں بات کی جائیگی۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• والدین کو اپنے بچوں کو کیوں بیشقیمت میراث خیال کرنا چاہئے؟
• والدین اور دوسرے لوگ یسوع سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
• والدین کو اپنے بچوں کیساتھ کتنا وقت گزارنا چاہئے؟
• بچوں کو کیا سکھایا جانا چاہئے اور اُنہیں کیسے تعلیم دی جانی چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
والدین یسوع کے تعلیم دینے کے طریقے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۱ پر تصویریں]
اسرائیلی والدین کو کب اور کیسے اپنے بچوں کو تعلیم دینی تھی؟
[صفحہ ۱۲ پر تصویریں]
والدین کو ہر وقت خدا کی تعلیمات اپنے بچوں کی نظروں کے سامنے رکھنی چاہئیں