مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایک یتیم بچے کو شفیق باپ مل جاتا ہے

ایک یتیم بچے کو شفیق باپ مل جاتا ہے

میری کہانی میری زبانی

ایک یتیم بچے کو شفیق باپ مل جاتا ہے

از دیمیترس سدراپولس

ایک افسر نے بندوق میری طرف بڑھاتے ہوئے غصے سے کہا:‏ ”‏آگے بڑھو اور چلاؤ گولی۔‏“‏ مَیں نے دھیمے لہجے میں انکار کر دیا۔‏ یہ سنتے ہی اس نے مجھ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جسے دیکھ کر سب فوجی خوفزدہ ہو گئے۔‏ میری موت یقینی تھی لیکن اسے میری خوش‌قسمتی سمجھیں کہ مَیں بچ گیا۔‏ لیکن یہ میری زندگی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔‏

میرے خاندان کا تعلق کپدُکیہ،‏ ترکی میں قیصریہ کے قریب رہنے والے ایک قبیلہ سے تھا۔‏ پہلی صدی میں اس علاقے کے چند اشخاص نے مسیحیت کو قبول کر لیا تھا۔‏ (‏اعمال ۲:‏۹‏)‏ تاہم بیسویں صدی کے آغاز سے حالات بالکل بدل چکے ہیں۔‏

پناہ‌گزین سے یتیم

میری پیدائش کے چند ماہ بعد ہی ۱۹۲۲ میں،‏ نسلی جھگڑوں کی وجہ سے میرے خاندان کو پناہ‌گزینوں کے طور پر یونان بھاگنا پڑا۔‏ میرے خوفزدہ والدین میرے علاوہ اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر بھاگ گئے۔‏ بیشمار تکالیف کے بعد انتہائی بُری حالت میں وہ شمالی یونان کے ایک گاؤں میں پہنچ گئے۔‏

جب مَیں چار سال کا تھا تو میرے چھوٹے بھائی کی پیدائش کے بعد میرے والد کی وفات ہو گئی۔‏ اُس وقت اُنکی عمر صرف ۲۷ سال تھی،‏ لیکن شدید مشکلات نے انہیں کمزور کر دیا تھا۔‏ میری ماں ان صدموں کو برداشت نہ کر سکی اور جلد ہی وہ بھی چل بسی۔‏ مَیں اور میرا بھائی بالکل بےسہارا ہو گئے۔‏ ہمیں مختلف یتیم‌خانوں میں بھیجا جاتا رہا اور آخر میں جب مَیں ۱۲ برس کا تھا تو مجھے تھسلنیکے کے ایک یتیم‌خانے بھیج دیا گیا جہاں مَیں نے مکینک کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔‏

یتیم‌خانے کے بےمروّت اور سخت‌گیر ماحول میں پرورش پاتے ہوئے مَیں اکثر سوچا کرتا تھا کہ لوگ اسقدر اذیت اور ناانصافی کا تجربہ کیوں کرتے ہیں۔‏ مَیں خود سے پوچھتا کہ خدا تکلیف‌دہ حالتوں کی اجازت کیوں دیتا ہے۔‏ جب ہمیں مذہبی تعلیم دی جاتی تو ہمیں سکھایا جاتا کہ خدا بہت طاقتور ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ اسقدر بُرائی کی وجہ کیا ہے۔‏ یہ مشہور تھا کہ یونانی آرتھوڈکس چرچ سب سے اچھا مذہب ہے۔‏ مگر جب مَیں نے یہ پوچھا کہ ”‏اگر یہی سب سے اچھا مذہب ہے تو ہر کوئی آرتھوڈکس کیوں نہیں ہے؟‏“‏ تو مجھے اسکا کوئی تسلی‌بخش جواب نہ مل سکا۔‏

ہمارا ایک اُستاد بائبل کیلئے گہرا احترام رکھتا تھا اور اُس نے ہمیں بتایا کہ یہ ایک مُقدس کتاب ہے۔‏ یتیم‌خانے کا نگران بھی ایسا ہی میلان رکھتا تھا۔‏ لیکن وہ مذہبی عبادتوں میں حصہ نہیں لیتا تھا۔‏ جب مَیں نے اسکی وجہ پوچھی تو اُس نے مجھے بتایا کہ وہ ماضی میں یہوواہ کے گواہوں سے بائبل مطالعہ کِیا کرتا تھا۔‏ یہ ایک ایسا مذہب تھا جسکی بابت مَیں نہیں جانتا تھا۔‏

جب تھسلنیکے کے یتیم‌خانے میں میری تعلیم مکمل ہوئی تو میری عمر ۱۷ سال تھی۔‏ دوسری عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی اور یونان نازیوں کے قبضے میں تھا۔‏ لوگ بھوک کی وجہ سے گلی‌کوچوں میں مر رہے تھے۔‏ اپنی جان بچانے کی خاطر مَیں ایک گاؤں میں چلا گیا اور معمولی تنخواہ پر کھیتوں میں کام کرنے لگا۔‏

مجھے بائبل سے جواب مل گئے

جب اپریل ۱۹۴۵ میں،‏ مَیں تھسلنیکے واپس آیا تو میرے بچپن کے ایک دوست کی بہن جو میرے ساتھ مختلف یتیم‌خانوں میں رہ چکا تھا مجھے ملنے کیلئے آئی۔‏ پاسکل‌یلیا نے مجھے بتایا کہ اسکا بھائی لاپتہ ہو گیا ہے اور وہ اُسی کی بابت پوچھنے کیلئے آئی ہے۔‏ اُس کیساتھ بات‌چیت کرتے ہوئے مجھے پتہ چلا کہ وہ یہوواہ کے گواہوں میں سے ایک ہے۔‏ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ خدا انسانوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔‏

انتہائی تلخ لہجے میں،‏ مَیں نے بہت سے اعتراضات اُٹھائے۔‏ مَیں کیوں بچپن سے تکلیف اُٹھا رہا ہوں؟‏ مجھے یتیم کیوں چھوڑ دیا گیا؟‏ خدا اُس وقت کہاں ہوتا ہے جب ہمیں اسکی اشد ضرورت ہوتی ہے؟‏ اس نے جواب دیا،‏ ”‏کیا آپکو پورا یقین ہے کہ ان تمام حالتوں کا ذمہ‌دار خدا ہے؟‏“‏ اپنی بائبل استعمال کرتے ہوئے اس نے مجھے بتایا کہ خدا لوگوں کو دُکھ نہیں دیتا۔‏ میری یہ دیکھنے میں مدد کی گئی کہ خالق انسانوں سے محبت کرتا ہے اور جلد ہی حالات کو بہتر کریگا۔‏ یسعیاہ ۳۵:‏۵-‏۷ اور مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴ جیسے صحائف استعمال کرتے ہوئے اس نے مجھے دکھایا کہ جلد ہی جنگ،‏ لڑائی،‏ بیماری اور موت کا خاتمہ ہو جائیگا۔‏ نیز یہ کہ وفادار لوگ زمین پر ہمیشہ زندہ رہینگے۔‏

ایک مددگار خاندان ملنا

مَیں نے سنا کہ پاسکل‌یلیا کا بھائی گوریلا فوجیوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔‏ مَیں اس خاندان کو تسلی دینے کیلئے گیا لیکن اسکی بجائے کہ مَیں اُنہیں تسلی دوں اُنہوں نے مجھے صحیفائی تسلی دی۔‏ بائبل سے ایسی تسلی‌بخش باتیں سننے کیلئے مَیں دوبارہ انکے پاس گیا اور جلد ہی مَیں یہوواہ کے گواہوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کا حصہ بن گیا جو خفیہ طور پر بائبل کا مطالعہ کرنے اور عبادت کیلئے جمع ہوتے تھے۔‏ گواہوں کو درپیش مشکلات کے باوجود،‏ مَیں ان سے مسلسل رفاقت رکھنے کا عزم رکھتا تھا۔‏

مجھے فروتن مسیحیوں کے اس گروہ میں ایک پُرمحبت خاندانی ماحول ملا جسکی مَیں کمی محسوس کرتا تھا۔‏ اُنہوں نے مجھے روحانی مدد اور حمایت فراہم کی جسکی مجھے اشد ضرورت تھی۔‏ انکی شکل میں مجھے بےغرض اور مخلص دوست ملے جو ہر وقت تسلی اور مدد دینے کیلئے تیار تھے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۷:‏۵-‏۷‏)‏ سب سے بڑھکر،‏ میری مدد کی گئی کہ مَیں یہوواہ کی قربت میں آ جاؤں۔‏ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اب مَیں یہوواہ کو اپنا شفیق آسمانی باپ سمجھنے لگا ہوں۔‏ اسکی محبت،‏ رحم اور فکرمندی جیسی خوبیوں نے مجھے بہت متاثر کِیا ہے۔‏ (‏زبور ۲۳:‏۱-‏۶‏)‏ بالآخر مجھے ایک روحانی خاندان اور شفیق باپ مل گیا!‏ اس سے میری بڑی دلجمعی ہوئی۔‏ جلد ہی مَیں نے خود کو یہوواہ کیلئے مخصوص کِیا اور ستمبر ۱۹۴۵ میں بپتسمہ لے لیا۔‏

مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے سے نہ صرف میرے علم میں اضافہ ہوا بلکہ میرا ایمان بھی مضبوط ہوا۔‏ چونکہ آمدورفت کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا اسلئے ہم میں سے بیشتر افراد اجلاسوں پر حاضر ہونے کیلئے اکثر تین میل کا فاصلہ پیدل طے کرتے تھے۔‏ لیکن اپنے سفر کے دوران ہم روحانی گفتگو کِیا کرتے تھے۔‏ جب ۱۹۴۵ کے آخر میں مجھے کُل‌وقتی مناد کے طور پر خدمت میں حصہ لینے کی بابت پتہ چلا تو مَیں نے پائنیر خدمت شروع کر دی۔‏ اس وقت یہوواہ کیساتھ ایک مضبوط رشتہ بہت ضروری تھا کیونکہ بہت جلد میرے ایمان اور راستی کی آزمائش ہونے والی تھی۔‏

غیرمتوقع مخالفت

پولیس اکثراوقات ہماری اجلاس کی جگہ پر چھاپہ مارا کرتی تھی۔‏ یونان میں خانہ‌جنگی کی وجہ سے مُلک میں فوجی حکومت (‏مارشل‌لا)‏ تھی۔‏ مخالف گروہ شدید نفرت کے باعث ایک دوسرے پر حملے کرنے لگے۔‏ اس صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پادریوں نے حکومت کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہوواہ کے گواہ کمیونسٹ ہیں اسلئے انہیں شدید اذیت دی جانی چاہئے۔‏

دو سال کے عرصہ میں ہمیں کئی بار گرفتار کِیا گیا اور چھ مرتبہ ہمیں چار ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔‏ چونکہ جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری پڑی تھی اسلئے ہمیں چھوڑ دیا جاتا تھا۔‏ ہم نے اپنی اس غیرمتوقع آزادی کو منادی کرنے کیلئے استعمال کِیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ہمیں ایک ہی ہفتہ میں تین بار گرفتار کِیا گیا۔‏ ہم جانتے تھے کہ ہمارے بہت سے بھائیوں کو جلاوطن کرکے ویران جزیروں میں بھیج دیا گیا ہے۔‏ کیا میرا ایمان اتنا مضبوط ہے کہ مَیں ایسی آزمائش کا سامنا کر سکوں؟‏

جب مجھے پولیس کی نگرانی میں دے دیا گیا تو حالات مزید بگڑ گئے۔‏ مجھ پر نظر رکھنے کیلئے حکام نے مجھے تھسلنیکے کے نزدیک اوسموس کے ایک تھانے میں بھیج دیا۔‏ مَیں نے قریب ہی ایک کمرہ کرائے پر لے لیا اور اپنی کفالت کرنے کیلئے برتنوں کی قلعی کا کام کرنے لگا۔‏ اسطرح مَیں پولیس کی نظر سے بچ کر آس‌پاس کے دیہاتوں میں منادی کرنے کے قابل بھی ہوا۔‏ نتیجتاً بہت سے لوگوں نے خوشخبری کو سنا اور مثبت جوابی‌عمل دکھایا۔‏ بالآخر ان میں سے دس سے زیادہ یہوواہ کے مخصوص‌شُدہ پرستار بن گئے۔‏

دس سال میں آٹھ جیلیں

مَیں ۱۹۴۹ کے آخر تک پولیس کی حراست میں رہا اور اسکے بعد تھسلنیکے واپس آ گیا تاکہ کُل‌وقتی خدمت جاری رکھ سکوں۔‏ سن ۱۹۵۰ میں،‏ جب مَیں نے سوچا کہ میری مشکلات ختم ہو گئی ہیں تو غیرمتوقع طور پر مجھے فوج میں شامل ہونے کا حکم دیا گیا۔‏ اپنی مسیحی غیرجانبداری کی وجہ سے مَیں ”‏جنگ کرنا“‏ نہیں سیکھ سکتا تھا۔‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۴‏)‏ یوں ایک طویل اذیتناک سفر شروع ہوا جسکی بدولت مجھے یونان کی بدنام‌ترین جیلوں میں جانا پڑا۔‏

اسکا آغاز یونان کے ایک شہر سے ہوا۔‏ میری قید کے ابتدائی ہفتوں کے دوران فوج میں بھرتی ہونے والے نئے فوجیوں نے اپنی بنیادی مشقیں شروع کر دی۔‏ ایک دن مجھے مشق کرنے کی جگہ پر لے جایا گیا اور ایک افسر نے بندوق میری طرف بڑھاتے ہوئے مجھے گولی چلانے کا حکم دیا۔‏ میرے انکار کرنے پر اُس نے مجھ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔‏ جب وہاں موجود دیگر افسران نے دیکھا کہ مَیں ایسا نہیں کرونگا تو اُنہوں نے وحشیانہ طریقے سے مجھے مارناپیٹنا شروع کر دیا۔‏ اُنہوں نے جلتی ہوئی سگریٹوں کو میری ہتھیلیوں پر مسلنا شروع کر دیا۔‏ بعدازاں،‏ اُنہوں نے مجھے تین دن تک قیدِتنہائی میں ڈال دیا۔‏ سگریٹ سے لگنے والے زخموں کی جلن بہت زیادہ تھی اور کئی سال تک میرے ہاتھوں پر اسکے نشان رہے۔‏

اس سے پہلے کہ مجھے فوجی عدالت میں پیش کِیا جاتا مجھے ایراکلیون میں کریتے کے ایک فوجی کیمپ بھیج دیا گیا۔‏ وہاں اُنہوں نے میرے ایمان کو کمزور کرنے کیلئے مجھے بُری طرح ماراپیٹا۔‏ حوصلہ ہار بیٹھنے کے خوف سے مَیں نے بڑی شدت کیساتھ اپنے آسمانی باپ یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ مجھے طاقت بخشے۔‏ یرمیاہ ۱:‏۱۹ کے الفاظ میرے ذہن میں آئے:‏ ”‏وہ تجھ سے لڑینگے لیکن تجھ پر غالب نہ آئینگے کیونکہ خداوند [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے مَیں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں۔‏“‏ مجھے ”‏خدا کے اطمینان“‏ نے آرام اور سکون بخشا۔‏ مَیں یہوواہ پر مکمل بھروسا کرنے کی اہمیت کو سمجھ گیا۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷؛‏ امثال ۳:‏۵‏۔‏

ایک مقدمے میں مجھے عمرقید کی سزا سنا دی گئی۔‏ یہوواہ کے گواہوں کو ”‏مُلک کے بدترین دُشمن“‏ خیال کِیا جاتا تھا۔‏ اس سزا کا آغاز کریتے کی ایک جیل سے ہوا جہاں مجھے قیدِتنہائی میں ڈال دیا گیا۔‏ یہ ایک پُرانا قلعہ تھا اور میری کوٹھری چوہوں سے بھری ہوئی تھی۔‏ ان چوہوں سے بچنے کیلئے مَیں ایک پھٹا پُرانا کمبل سر سے پاؤں تک لپیٹ لیتا تھا۔‏ مَیں نمونیا کی وجہ سے بہت بیمار ہو گیا۔‏ ڈاکٹر نے مجھے دھوپ میں بیٹھنے کیلئے کہا اور یوں مجھے صحن میں بہت سے قیدیوں سے بات‌چیت کرنے کا موقع ملا۔‏ تاہم دن‌بدن میری حالت بگڑتی گئی اور پھیپھڑوں سے خون رسنے کی وجہ سے مجھے ایراکلیون کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔‏

ساتھی مسیحیوں کا روحانی خاندان ایک بار پھر میری مدد کیلئے موجود تھا۔‏ (‏کلسیوں ۴:‏۱۱‏)‏ ایراکلیون میں بھائی باقاعدگی سے میرے پاس آکر مجھے تسلی اور حوصلہ دیتے تھے۔‏ مَیں نے انہیں بتایا کہ دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو گواہی دینے کیلئے مجھے بائبل پر مبنی کتابوں اور رسالوں کی ضرورت ہے۔‏ اُنہوں نے مجھے ایک سوٹ‌کیس لاکر دیا جسکے ایک خفیہ خانے میں مَیں ان کتابوں اور رسالوں کو چھپا سکتا تھا۔‏ کتنی خوشی کی بات ہے کہ قید کے دوران مَیں ساتھی قیدیوں میں سے چھ کو سچے مسیحی بننے میں مدد دینے کے قابل ہوا تھا!‏

اسی اثنا میں خانہ‌جنگی ختم ہو گئی اور میری سزا بھی کم کرکے دس سال کر دی گئی۔‏ مَیں نے اپنی باقی سزا تین مختلف جیلوں میں کاٹی۔‏ آٹھ مختلف جیلوں میں تقریباً دس سال گزارنے کے بعد مجھے رِہا کر دیا گیا۔‏ اسکے بعد مَیں واپس تھسلنیکے آ گیا جہاں میرے مسیحی بھائیوں نے میرا پُرتپاک خیرمقدم کِیا۔‏

مسیحی بھائیوں کی مدد سے ترقی کرنا

اس وقت تک یونان میں گواہ نسبتاً آزادی سے پرستش کر سکتے تھے۔‏ مَیں نے فوراً کُل‌وقتی خدمت دوبارہ شروع کرنے کے موقع سے فائدہ اُٹھایا۔‏ جلد ہی مجھے ایک اَور برکت بھی ملی۔‏ میری ملاقات یہوواہ سے محبت رکھنے اور منادی کے کام میں سرگرمی سے حصہ لینے والی ایک وفادار مسیحی بہن کاٹینا سے ہوئی۔‏ اکتوبر ۱۹۵۹ میں ہم نے شادی کر لی۔‏ میری بیٹی اگاپے کی پیدائش اور میرے مسیحی خاندان نے میری یتیمی کی تمام محرومیوں کا ازالہ کر دیا۔‏ سب سے اہم بات یہ کہ ہمارا خاندان آسمانی باپ یہوواہ کے پُرمحبت تحفظ میں اُسکی خدمت کرکے خوش تھا۔‏—‏زبور ۵:‏۱۱‏۔‏

شدید معاشی دباؤ کی وجہ سے مجھے پائنیر خدمت چھوڑنی پڑی لیکن مَیں نے اپنی بیوی کی مدد کی تاکہ وہ کُل‌وقتی خدمت کو جاری رکھ سکے۔‏ سن ۱۹۶۹ میں،‏ میری مسیحی زندگی میں ایک اہم واقعہ پیش آیا۔‏ جرمنی،‏ نیورمبرگ میں یہوواہ کے گواہوں کا ایک بین‌الاقوامی کنونشن منعقد ہونے والا تھا۔‏ جب مَیں وہاں جانے کی تیاری کر رہا تھا تو مَیں نے پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے درخواست کی۔‏ جب میری بیوی یہ پوچھنے کیلئے تھانے گئی کہ دو مہینے سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود مجھے ابھی تک پاسپورٹ کیوں نہیں ملا۔‏ ایک افسر نے دراز سے ایک موٹی فائل نکالی اور کہا:‏ ”‏کیا تم اس شخص کیلئے پاسپورٹ کا پوچھ رہی ہو تاکہ وہ وہاں جاکر لوگوں کو اپنے پیروکار بنا سکے؟‏ ناممکن!‏ وہ ایک خطرناک آدمی ہے۔‏“‏

یہوواہ کی مدد اور کچھ بھائیوں کے تعاون سے میرا نام ایک اجتماعی پاسپورٹ میں آ گیا اور یوں مَیں اس شاندار کنونشن پر حاضر ہونے کے قابل ہوا۔‏ حاضرین کی تعداد ۰۰۰،‏۵۰،‏۱ تھی اور مَیں بڑے واضح طور پر یہوواہ کی روح کو اس بین‌الاقوامی خاندان کو ہدایات دیتے اور متحد کرتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔‏ اپنی زندگی کے آخری حصے میں مَیں مسیحی برادری کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوا۔‏

سن ۱۹۷۷ میں،‏ میری وفادار بیوی مجھ سے جُدا ہو گئی۔‏ مَیں نے اپنی بیٹی کی پرورش بائبل اصولوں کے مطابق کرنے کی پوری کوشش کی۔‏ اس سلسلے میں بھی مَیں تنہا نہیں تھا۔‏ ایک بار پھر میرا روحانی خاندان میری مدد کیلئے پہنچ گیا۔‏ مَیں ان مشکل حالات میں بھائیوں کی مدد کیلئے ہمیشہ شکرگزار رہونگا۔‏ ان میں سے چند ایک تو میری بیٹی کی دیکھ‌بھال کرنے کیلئے کچھ عرصہ کیلئے ہمارے گھر میں ہی منتقل ہو گئے۔‏ مَیں کبھی بھی اُنکی اس خودایثارانہ محبت کو نہیں بھول سکتا۔‏—‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏۔‏

اگاپے بڑی ہوئی اور ایک بھائی الیاس سے اسکی شادی ہو گئی۔‏ انکے چار بیٹے ہیں اور وہ سب سچائی میں ہیں۔‏ کچھ عرصہ سے بیماری کے پےدرپے حملوں سے میری صحت کافی خراب ہو گئی ہے۔‏ میری بیٹی اور اسکا خاندان میری دیکھ‌بھال کرتے ہیں۔‏ خراب صحت کے باوجود میرے پاس خوش ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔‏ مَیں اس وقت کو یاد کرتا ہوں جب تھسلنیکے میں صرف ایک سو بھائی تھے جو عبادت کیلئے خفیہ طور پر گھروں میں جمع ہوا کرتے تھے۔‏ اب وہاں تقریباً پانچ ہزار سرگرم گواہ ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۶۰:‏۲۲‏)‏ کنونشنوں پر نوجوان بھائی میرے پاس آکر مجھ سے پوچھتے ہیں:‏ ”‏کیا آپکو یاد ہے جب آپ ہمارے گھر رسالے لیکر آیا کرتے تھے؟‏“‏ اگرچہ والدین نے تو شاید ان رسالوں کو نہ پڑھا ہو توبھی انکے بچوں نے پڑھا اور روحانی طور پر ترقی کی!‏

جب مَیں یہوواہ کی تنظیم میں ہونے والی ترقی کو دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جوکچھ مَیں نے برداشت کِیا وہ رائیگاں نہیں گیا۔‏ مَیں ہمیشہ اپنے نواسوں اور دیگر نوجوانوں کو بتاتا ہوں کہ اپنی جوانی میں اپنے آسمانی باپ یہوواہ کو یاد رکھیں تو وہ آپکو کبھی نہیں چھوڑیگا۔‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱‏)‏ میرے سلسلے میں اپنے وعدے کے مطابق یہوواہ ”‏یتیموں کا باپ“‏ ثابت ہوا ہے۔‏ (‏زبور ۶۸:‏۵‏)‏ اگرچہ مَیں ایک یتیم بچہ تھا لیکن بالآخر مجھے ایک شفیق باپ مل گیا!‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

ایک جیل میں مَیں نے بطور خانساماں کام کِیا

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

سن ۱۹۵۹ میں،‏ اپنی شادی کے دن کاٹینا کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

سن ۱۹۶۰ کے آخر میں،‏ تھسلنیکے کے قریبی جنگل میں ایک اسمبلی

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

سن ۱۹۶۷ میں،‏ اپنی بیٹی کیساتھ