”یہوواہ کی اور جدعون کی تلوار“
”یہوواہ کی اور جدعون کی تلوار“
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب بنیاسرائیل پر قاضی حکومت کر رہے تھے۔ تقریباً ۷ سال سے مِدیانی لوگ بنیاسرائیل کو بہت ستا رہے ہیں۔ جونہی فصل اُگنے لگتی ہے مِدیانی، عمالیقی اور اہلِمشرق کے لوگ چراگاہوں کی تلاش میں اسرائیل کی سرزمین پر چڑھ آتے ہیں۔ وہ اُنٹوں پر سوار ہیں اور اُنکی تعداد ٹڈیوں کے دَل کی مانند ہے۔ وہ اپنے چوپایوں کو ساتھ لیکر آتے ہیں جو کھڑی فصل کو چر جاتے ہیں۔ مِدیانی بنیاسرائیل کیلئے نہ بھیڑ بکری نہ گائےبیل اور نہ ہی گدھا چھوڑتے ہیں۔ اسرائیلی اس حد تک مِدیانیوں کی وجہ سے خوفزدہ ہیں کہ وہ اپنی بچیبچائی فصل کو پہاڑوں اور غاروں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔
بنیاسرائیل پر یہ آفت کیوں آئی ہے؟ وہ سچی عبادت کو ترک کرکے بُتوں کی پوجا کرنے لگے ہیں۔ اسلئے یہوواہ خدا نے اُنہیں اپنے دُشمنوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ لیکن جب بنیاسرائیل ان حملوں کی وجہ سے بہت ہی گھبرا جاتے ہیں تو وہ یہوواہ سے مدد کی فریاد کرنے لگتے ہیں۔ کیا یہوواہ اُنکی فریاد سنے گا؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم اس واقعے سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔—قضاۃ ۶:۱-۶۔
کیا جدعون واقعی ایک ”زبردست سورما“ ہے؟
اسرائیلی کسان فصل کو گاہنے کیلئے اسے کھلیہان میں جمع کرتے تھے۔ یہ ایک کُھلا میدان ہوتا تھا جہاں ہوا خوب چلتی تھی۔ اسطرح جب اناج کو پھٹکایا جاتا تو بھوسا دانوں سے الگ ہو کر ہوا میں اُڑ جاتا۔ لیکن ۷ سال سے مِدیانی اسرائیل کی سرزمین پر چھائے ہوئے تھے۔ اسلئے اسرائیلی کسان اناج گاہنے کیلئے اسے کھلیہان میں جمع نہیں کر سکتے تھے۔ اور اسی وجہ سے جدعون بھی چھپ کر گیہوں کے دانوں کو مے کے کولھو میں جھاڑ رہا ہے۔ یہ پتھر کا ایک بڑا سا حوض ہے جس میں دراصل انگوروں کا رس بیلا جاتا ہے۔ (قضاۃ ۶:۱۱) البتہ کولھو میں کم ہی اناج ایک وقت میں گاہا جا سکتا ہے لیکن مِدیانیوں کی وجہ سے جدعون ایسا کرنے پر مجبور ہے۔
جدعون اپنے کام میں لگا ہے کہ اچانک اُسے یہوواہ کا فرشتہ دکھائی دیتا ہے۔ فرشتہ جدعون سے کہتا ہے کہ ”اَے زبردست سورما! [یہوواہ] تیرے ساتھ ہے۔“ (قضاۃ ۶:۱۲) یہ سُن کر جدعون کتنا حیران ہوا ہوگا۔ وہ تو مِدیانیوں کے خوف سے گیہوں کو مے کے ایک کولھو میں گاہ رہا ہے۔ ایک سورما یعنی بہادر شخص ایسا تو نہیں کرتا۔ لیکن فرشتے نے اُسے اسلئے سورما کا لقب دیا کیونکہ خدا جانتا تھا کہ جدعون ایک دلیر راہنما بن سکتا ہے۔ کیا جدعون بھی اس بات کا یقین رکھتا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔
یہوواہ خدا جدعون سے کہتا ہے: ”جا اور بنیاسرائیل کو مِدیانیوں کے ہاتھ سے چھڑا۔“ لیکن جدعون کہتا ہے: ”اَے مالک! مَیں کسطرح بنیاسرائیل کو بچاؤں؟ میرا گھرانا منسیؔ میں سب سے غریب ہے اور مَیں اپنے باپ کے گھر میں سب سے چھوٹا ہوں۔“ دراصل جدعون اطمینان کر لینا چاہتا ہے کہ بنیاسرائیل کو مِدیانیوں کے ہاتھ سے چھڑانے کیلئے یہوواہ خدا واقعی اسکے ساتھ ہوگا۔ اسلئے وہ ایک نشان کی درخواست کرتا ہے اور خدا اُسکی سُن لیتا ہے۔ جب جدعون فرشتے کیلئے کھانا تیار کرکے لاتا ہے تو پتھر سے آگ نکل کر کھانے کو بھسم کر دیتی ہے۔ یہ نشان دیکھ کر جدعون کو تسلی ہو جاتی ہے اور وہ وہاں یہوواہ کیلئے ایک مذبح بناتا ہے۔—قضاۃ ۶:۱۲-۲۴۔
بعل کو ’آپ ہی اپنے لئے جھگڑنے‘ دو
دراصل بنیاسرائیل اپنی ہی غلطی کی وجہ سے اس مصیبت میں پڑے ہیں۔ وہ بعل کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ یہوواہ ”خدایِغیور“ ہے جو اپنے سوا کسی اَور کی عبادت کو برداشت نہیں کرتا۔ (خروج ۳۴:۱۴) اس وجہ سے یہوواہ خدا جدعون کو حکم کرتا ہے کہ اُس بعل کے مذبح کو جو تیرے باپ کا ہے ڈھا دے۔ جدعون خدا کے اس حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ لیکن وہ یہ کام رات کے وقت کرتا ہے جب سب لوگ سو رہے ہیں کیونکہ اُسے اپنے باپ اور اُس شہر کے باشندوں کا ڈر ہے۔
جب لوگوں کو صبح اُٹھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ کام جدعون نے کِیا ہے تو وہ نہایت غصے ہوتے ہیں اور اُسکو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جدعون کا باپ قضاۃ ۶:۲۵-۳۲۔
یوآس اُسکی مدد کو آتا ہے۔ وہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اگر بعل واقعی خدا ہے تو وہ اپنی حفاظت خود کرے۔ پھر یوآس اپنے بیٹے کا نام یربعل رکھتا ہے، جسکا مطلب ہے: ”بعلؔ آپ اِس سے جھگڑ لے۔“—یہوواہ خدا اُس شخص کو ضرور برکت دیتا ہے جو دلیری سے اُسکے حکم پر عمل کرتا ہے۔ اسلئے جب مِدیانی ایک بار پھر سے اسرائیل کی سرزمین پر چڑھ آتے ہیں تو ”[یہوواہ] کی روح جدعوؔن پر نازل“ ہوتی ہے۔ (قضاۃ ۶:۳۴) اس پاک روح کے اثر سے جدعون دلیر بن جاتا ہے۔ وہ منسی، آشر، زبولون اور نفتالی کے قبیلوں سے آدمی جمع کرکے مِدیانیوں سے لڑائی کرنے کیلئے نکلتا ہے۔—قضاۃ ۶:۳۵۔
جنگ کی تیاریاں
جدعون ہر معاملے میں احتیاط سے کام لیتا ہے۔ حالانکہ اُسکا لشکر ۰۰۰،۳۲ آدمیوں پر مشتمل ہے پھربھی وہ اس بات کا یقین کر لینا چاہتا ہے کہ یہوواہ واقعی اُسکے ساتھ ہے۔ اسلئے وہ کھلیہان پر بھیڑ کی اُون بچھا دیتا ہے۔ اگر اوس صرف اُون ہی پر پڑے گی اور آسپاس کی زمین خشک رہے گی تو جدعون جان جائے گا کہ یہوواہ بنیاسرائیل کو رہائی بخشے گا۔ یہوواہ ایسا ہی ہونے دیتا ہے۔ لیکن جدعون ایک بار پھر خدا سے ایک نشان مانگتا ہے۔ اس بار بھیڑ کی اُون کو خشک رہنا ہے لیکن آسپاس کی زمین پر اوس پڑنی ہے۔ کیا جدعون حد سے زیادہ محتاط ہے؟ نہیں، یہوواہ خدا اُس سے ناراض ہونے کی بجائے اس بار بھی اُسکی درخواست پوری کرتا ہے۔ (قضاۃ ۶:۳۶-۴۰) آجکل یہوواہ اپنے کلام کے ذریعے ہمارا اعتماد بڑھاتا اور ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ اسلئے ہم اُس سے یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ معجزوں کے ذریعے ہماری راہنمائی کرے۔
اب خدا جدعون سے کہتا ہے کہ تمہارا لشکر بہت بڑا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی اپنے دُشمنوں کو شکست دے کر خود پر فخر کرنے لگیں اور سوچنے لگیں کہ ہمارے ہاتھ نے ہم کو بچایا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہونی چاہئے کہ بنیاسرائیل صرف یہوواہ خدا ہی کی مدد سے اپنے دُشمنوں پر غالب آئے ہیں۔ اسلئے خدا جدعون سے استثنا ۲۰:۸ میں پائے جانے والے اصول پر عمل کرنے کو کہتا ہے۔ لہٰذا جدعون تمام کچے دل سپاہیوں کو لوٹ جانے کو کہتا ہے جس پر ۰۰۰،۲۲ آدمی چلے جاتے ہیں۔ اب جدعون کے پاس صرف ۰۰۰،۱۰ سپاہی باقی رہ گئے ہیں۔—قضاۃ ۷:۲، ۳۔
لیکن خدا کی نظروں میں لشکر اب بھی بہت بڑا ہے۔ اسلئے وہ جدعون سے کہتا ہے کہ وہ اپنے سپاہیوں کو آزمانے کے لئے چشمے کے پاس لے جائے۔ یہودی تاریخدان یوسیفس کے مطابق جدعون اپنے سپاہیوں کو دن کی تپتی دھوپ میں چشمے تک لے جاتا ہے۔ جونہی لشکر چشمے کے پاس پہنچتا ہے سپاہی اپنی پیاس بجھانے لگتے ہیں۔ اس دوران جدعون اُنکو غور سے دیکھتا ہے۔ صرف ۳۰۰ سپاہی اپنا ہاتھ اپنے مُنہ سے لگا کر چپڑ چپڑ کرکے پانی پی رہے ہیں۔ لہٰذا جدعون صرف ان ۳۰۰ چوکس سپاہیوں کو اپنے لشکر میں شامل کرتا ہے۔ (قضاۃ ۷:۴-۸) ذرا سوچیں، مِدیانیوں کے لشکر میں کُل ۰۰۰،۳۵،۱ سپاہی ہیں۔ اب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جدعون اپنے چھوٹے سے لشکر کیساتھ یہوواہ خدا کی مدد کے بغیر اتنی بڑی فوج پر غالب نہیں آ سکتا۔
پھر خدا جدعون کو ایک نوکر کیساتھ دُشمنوں کی لشکرگاہ میں اُتر جانے کو کہتا ہے۔ وہاں پہنچ کر جدعون ایک شخص کی بات سُن لیتا ہے جو اپنے ساتھی کو اپنے ایک خواب کے بارے میں بتا رہا ہے۔ وہ ساتھی خواب کی تعبیر قضاۃ ۷:۹-۱۵۔
کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خدا نے مِدیان کو جدعون کے ہاتھ میں کر دیا ہے۔ یہ سُن کر جدعون کی ہمت بڑھتی ہے۔ اُسے یقین ہو جاتا کہ یہوواہ خدا اُسے اپنے ۳۰۰ سپاہیوں سمیت مِدیانیوں پر ضرور فتح بخشے گا۔—جنگی چال
اب جدعون اپنے ۳۰۰ سپاہیوں کو سو سو کے تین غول میں تقسیم کرتا ہے۔ ہر سپاہی کو ایک نرسنگا اور ایک خالی گھڑا دیا جاتا ہے جس میں ایک مشعل ہوتی ہے۔ پھر جدعون سپاہیوں سے کہتا ہے کہ مجھے غور سے دیکھتے رہنا اور جو کچھ مَیں کروں گا تُم بھی ویسا ہی کرنا۔ جب مَیں نرسنگا پھونکنے لگوں تو تُم بھی اپنا اپنا نرسنگا پھونکنا اور یوں للکارنا: ”یہوؔواہ کی اور جدعوؔن کی تلوار۔“—قضاۃ ۷:۱۶-۱۸، ۲۰۔
بنیاسرائیل کے ۳۰۰ سپاہی چپکے سے مِدیانیوں کی لشکرگاہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وہاں پہنچ کر وہ اسے گھیر لیتے ہیں۔ رات کے تقریباً دس بجے ہیں۔ دُشمن کی لشکرگاہ میں ابھی ابھی نئے سنتری اپنا پہرہ دینے کیلئے آئے ہیں۔ اُنکی نظر ابھی اندھیرے کی عادی نہیں ہوئی ہے۔ یہی حملہ کرنے کا بہترین وقت ہے۔
ایک دم سے جدعون اور اُسکے ۳۰۰ سپاہی اپنے اپنے گھڑوں کو توڑنے، نرسنگوں کو پھونکنے اور زور سے للکارنے لگتے ہیں۔ یہ شور رات کی خاموشی کو چیر دیتا ہے۔ مِدیانی خوف سے تھرتھرانے لگتے ہیں۔ ”یہوؔواہ کی اور جدعوؔن کی تلوار“ کا نعرہ سنتے ہی مِدیانی مارے خوف کے چلّانے لگتے ہیں۔ لشکرگاہ میں افراتفری مچ جاتی ہے۔ مِدیانیوں کو ایسا لگتا ہے کہ دُشمن اُن پر ٹوٹ پڑا ہے۔ اسلئے وہ ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس دوران جدعون اور اُسکے سپاہی اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہتے ہیں۔ جب دُشمن بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں تو جدعون دُور دُور تک اُنکا پیچھا کرکے اُنکو مار ڈالتا ہے۔ یوں بنیاسرائیل مِدیانیوں پر غالب آتے ہیں۔ اسکے بعد مِدیانی بنیاسرائیل کے خلاف سر اُٹھانے کی جُرأت نہیں کرتے۔—قضاۃ ۷:۱۹-۲۵؛ ۸:۱۰-۱۲، ۲۸۔
کیا اس جیت کے بعد جدعون خود پر فخر کرنے لگتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ جب افرائیم کے لوگ اُسکے ساتھ اس بات پر جھگڑنا چاہتے ہیں کہ اُنہیں مِدیانیوں کے خلاف لڑائی میں شامل کیوں نہیں کِیا گیا تو جدعون بڑی نرمی سے جواب دیتا ہے۔ اسطرح اُنکا غصہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔—قضاۃ ۸:۱-۳؛ امثال ۱۵:۱۔
بنیاسرائیل جدعون کے اتنے شکرگزار ہیں کہ وہ اُسے بادشاہ بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن جدعون انکار کر دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ مِدیانیوں پر جیت اُسکی نہیں بلکہ یہوواہ کی تھی۔ اسلئے وہ کہتا ہے: ”نہ مَیں تُم پر حکومت کروں اور نہ میرا بیٹا بلکہ [یہوواہ] ہی تُم پر حکومت کرے گا۔“—قضاۃ ۸:۲۳۔
پھر جدعون ایک غلطی کرتا ہے۔ وہ لُوٹ کے مال سے ایک افود بنواتا ہے اور اُسے اپنے شہر میں رکھتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ سب اسرائیلی اُس افود سے ”زِناکاری“ کرنے یعنی اُسکی پوجا کرنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ افود جدعون اور اُسکے گھرانے کیلئے بھی پھندا بن جاتا ہے۔ اسکے باوجود خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ جدعون یہوواہ پر ایمان رکھتا تھا۔ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اُس نے یہوواہ کی عبادت کو ترک نہیں کِیا تھا۔—قضاۃ ۸:۲۷؛ عبرانیوں ۱۱:۳۲-۳۴۔
ہمارے لئے سبق
جدعون کیساتھ ہونے والے واقعات سے ہمارا حوصلہ بڑھتا ہے اور ہم آگاہی بھی پاتے ہیں۔ آگاہی یہ کہ اگر ہم سچی عبادت کو ترک کر دیں گے تو یہوواہ ہمیں اپنی پاک روح اور برکتوں سے نہیں نوازے گا۔ پھر ہماری حالت اُس ملک کے باشندوں جیسی ہو جائے گی جہاں ٹڈیوں کے دَل سب کچھ تباہ کر جاتے ہیں۔ ہم روحانی طور پر بالکل کنگال ہو جائیں گے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم جس بُرے دَور میں رہ رہے ہیں اس میں ”[یہوواہ] ہی کی برکت دولت بخشتی ہے اور وہ اُسکے ساتھ دُکھ نہیں ملاتا۔“ (امثال ۱۰:۲۲) لیکن خدا ہمیں صرف اُس وقت برکت سے نوازے گا جب ہم ”پورے دل اور رُوح کی مستعدی سے اُسکی عبادت“ کریں گے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو وہ ہمیں رد کر دے گا۔—۱-تواریخ ۲۸:۹۔
جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے جدعون کے چھوٹے سے لشکر کو ۰۰۰،۳۵،۱ مِدیانیوں پر فتح دی تھی تو ہمارا حوصلہ بڑھتا ہے۔ ہم جان جاتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے خادموں کو ہر مشکل میں سے بچا سکتا ہے۔ ان واقعات سے ہم یہوواہ کی قدرت اور طاقت کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم بھی بہت ہی خطرناک حالات کا سامنا کر رہے ہوں۔ تب ہمیں بھی جدعون کی طرح یہوواہ خدا پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ وہ اپنے وفادار خادموں کو بڑی سے بڑی مشکل سے بچا سکتا ہے اور اُنکو برکتوں سے بھی نوازتا ہے۔