پُنطیُس پیلاطُس کون تھا؟
پُنطیُس پیلاطُس کون تھا؟
”پیلا طُس ایک تاریخی شخصیت ہے جسے آج تک ایک شکی اور مغرور حاکم کے طور پر یاد کِیا جاتا ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں کے نزدیک وہ ایک ولی تھا لیکن دوسروں کا خیال ہے کہ وہ بہت سی خامیوں کا مالک تھا۔ اُنکی نظر میں پیلاطُس ایک ظالم سیاستدان تھا جو اپنی حکومت کو قائم رکھنے کی خاطر ایک بےقصور شخص کو قتل کروانے تک تیار تھا۔“ یہ حوالہ مصنفہ این رَو کی کتاب ”پُنطیُس پیلاطُس“ سے لیا گیا ہے۔
آپ پیلاطُس کے بارے میں کیسے خیال کرتے ہیں؟ زیادہتر لوگ اُسے یسوع مسیح کے قاتل کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ لیکن پُنطیُس پیلاطُس درحقیقت کون تھا؟ ہم اُسکے بارے میں کیا کچھ جانتے ہیں؟ آئیے ہم اسکی شخصیت پر غور کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم یسوع مسیح کی موت پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
پیلاطُس کی حیثیت اور اختیار
سن ۲۶ میں رومی قیصر تبریس نے پُنطیُس پیلاطُس کو صوبۂیہودیہ کا حاکم بنایا۔ ایسے حاکم عام طور پر فوج کے گُھڑسواروں کے سرداروں میں سے چنے جاتے۔ اُنکا درجہ ان نوابوں سے کم ہوتا جو سیاسی عہدوں پر فائز ہوتے تھے۔ پیلاطُس کی فوجی زندگی ایک پلٹن کے سردار کی حیثیت سے شروع ہوئی ہوگی۔ اُس نے جلد ترقی کی۔ وہ ۳۰ سال کا بھی نہیں ہوا تھا کہ اُسے یہودیہ کے حاکم کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔
پیلاطُس کی وردی ایک چمڑے کے کُرتے اور دھات کے بنے ہوئے بکتر پر مشتمل تھی۔ دوسرے اوقات پر پیلاطُس سفید ٹوگا یعنی دھوتی پہنتا تھا جسکا کنارہ ارغوانی رنگ کا ہوتا۔ اُس نے اپنے بال چھوٹے رکھے ہوں گے اور اپنا شیو نہیں بڑھایا ہوگا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ سپین کا تھا۔ لیکن اُسکے نام پُنطیُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پَونٹی نامی ایک قبیلے سے تعلق رکھتا تھا جو جنوبی اٹلی میں آباد تھا۔
پیلاطُس جیسا درجہ رکھنے والے حاکموں کو عام طور پر اُن علاقوں میں سرکاری عہدہ دیا جاتا جنکے باشندے رومیوں کی نظر میں وحشی تھے۔ یہودیہ اس قسم کا ایک علاقہ تھا۔ پیلاطُس یہودیہ کا انتظام کرنے کیساتھ ساتھ محصول لینے والوں کی نگہبانی بھی کرتا تھا۔ اگرچہ یہودی عدالتیں روزمرّہ معاملوں میں خود فیصلہ کرتی تھیں لیکن زندگی اور موت کا فیصلہ پیلاطُس ہی کرتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ یہودی صدرِعدالت کا فیصلہ بدل بھی سکتا تھا۔
پیلاطُس اپنی بیوی کیساتھ شہر قیصریہ میں رہتا تھا۔ اُسکے گھر میں نوکروں کے علاوہ چند مُنشی اور پیامبر بھی رہتے تھے۔ پیلاطُس پانچ پلٹنوں کا سردار تھا۔ ہر پلٹن میں ۵۰۰ تا ۰۰۰،۱ پیادے تھے۔ اسکے علاوہ وہ ۵۰۰ گُھڑسواروں کا بھی سردار تھا۔ رومی سپاہی مُجرموں کو اکثر موت کی سزا دیتے تھے۔ امن کے وقت وہ ایسی سزا پوچھگچھ کرنے کے بعد ہی دیتے تھے۔ لیکن جب ایک علاقے میں لوگ بغاوت کرتے تو سپاہی باغیوں کو گرفتار کرنے کے فوراً بعد ہی مار ڈالتے تھے۔ ایسے موقعوں پر بہت خونخرابہ ہوتا۔ مثال کے طور پر جب سپرٹکس نامی ایک غلام نے بغاوت کی تو بہت سے غلاموں نے اُسکا ساتھ دیا۔ اس پر رومیوں نے بغاوت کو ختم کرنے کیلئے ۰۰۰،۶ غلاموں کو مار ڈالا۔ عام طور پر جب یہودیہ کے لوگ بغاوت کرتے تو وہاں کا حاکم قیصر کے ایک نمائندے سے مدد کی درخواست کر سکتا تھا۔ یہ نمائندہ نزدیک ہی یعنی صوبۂسُوریہ میں رہتا تھا اور
اسکے پاس ایک بہت بڑی فوج تھی۔ لیکن پیلاطُس کی حکومت کے دوران یہ نمائندہ اکثر سُوریہ سے دُور رہتا تھا۔ اسلئے اس سے پہلے کہ ایک بغاوت زور پکڑے پیلاطُس کیلئے لازمی تھا کہ وہ اُسے کچل دے۔صوبوں کے حاکموں اور قیصر کے درمیان باقاعدہ رابطہ تھا۔ جب کسی نہ کسی وجہ سے رومیوں کا اختیار خطرے میں ہوتا یا کوئی شخص قیصر کی توہین کرتا تو اُس علاقے کا حاکم قیصر کو فوراً خبر بھیجتا۔ ایسا کرنے سے وہ قیصر کو اپنے ہی نقطۂنظر سے واقعات کا بیان دے سکتا تھا۔ اگر وہ اپنا بیان بھیجنے میں دیر کرتا تو ہو سکتا تھا کہ دوسروں کی شکایتیں حاکم کے بیان سے پہلے ہی قیصر تک پہنچ جاتیں۔ پیلاطُس کو یہی فکریں ستائے جاتیں کیونکہ یہودیہ میں ہر وقت بغاوت کا خطرہ رہتا تھا۔
انجیل کے علاوہ رومی تاریخدان تستُس نے بھی بیان کِیا کہ یسوع مسیح، جس نے مسیحیوں کی تحریک کو نام دیا، پیلاطُس کے ہاتھ سے مارا گیا تھا۔ ہم یوسیفس اور فیلو کی تاریخی داستانوں سے بھی پیلاطُس کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
پیلاطُس یہودیوں کو غصہ دِلاتا ہے
یوسیفس بیان کرتا ہے کہ رومی حاکم عام طور پر فوجی جھنڈوں کو یروشلیم میں نہیں لاتے تھے کیونکہ ان پر قیصر کی تصویر بنی ہوتی اور یہودیوں کو کسی کی تصویر بنانے پر سخت اعتراض تھا۔ لیکن پیلاطُس نے انکا کوئی لحاظ نہیں کِیا۔ اسلئے یروشلیم کے بہت سے یہودی پیلاطُس سے شکایت کرنے کیلئے اُسکے پاس قیصریہ گئے۔ پیلاطُس نے اُنہیں پانچ دن تک نظرانداز کِیا۔ پھر چھٹے دن اُسکے سپاہیوں نے یہودیوں کو گھیر کر اُنہیں گھر جانے کا حکم دیا، نہیں تو اُنکو مار ڈالا جاتا۔ یہودیوں کا جواب تھا: ”ہم مرنے کو تیار ہیں لیکن شریعت کو نہیں توڑیں گے۔“ تب پیلاطُس نے انکو رِہا کر دیا اور فوجی جھنڈوں کو یروشلیم سے نکالنے کا حکم دیا۔
لیکن پیلاطُس سختی کرنے کے بھی قابل تھا۔ یوسیفس ایک واقعے کے بارے میں بتاتا ہے جب پیلاطُس نے یروشلیم کو پانی مہیا کرنے کیلئے ایک نالے کو بنوانے کا منصوبہ باندھا۔ اس منصوبے کیلئے اُس نے ہیکل کے خزانے میں سے کچھ رقم استعمال کی۔ ہو سکتا ہے کہ ہیکل کے سرداروں ہی نے اُسے یہ رقم دی تھی۔ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟ پیلاطُس خوب جانتا تھا کہ اگر وہ ہیکل کے خزانے میں سے رقم ضبط کر لیتا تو یہودی آگبگولا ہو کر قیصر سے شکایت کرتے۔ اسکے نتیجے میں قیصر پیلاطُس کو حاکم کے عہدے سے خارج بھی کر سکتا تھا۔ اسکے علاوہ ہیکل کے سرداروں کا یہ حق تھا کہ وہ عطیات کو شہریوں کی بھلائی کیلئے استعمال میں لائیں۔ ان سب باتوں کے باوجود یہودیوں نے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر پیلاطُس کے خلاف جلوس نکالا۔
پیلاطُس اِس جلوس کو خون بہائے بغیر روکنا چاہتا تھا۔ اسلئے اُس نے اپنے سپاہیوں کو تلوار استعمال کرنے کی بجائے لاٹھیچارج کرنے کا حکم دیا۔ ایسا کرنے سے پیلاطُس جلد ہی اِس ہنگامے پر قابو پا سکا۔ اسکے باوجود افراتفری میں کچھ لوگ مار ڈالے گئے۔ جب بعض لوگوں نے یسوع سے کہا کہ پیلاطُس نے گلیلیوں کا خون انکے ذبیحوں کیساتھ ملایا تھا تو وہ شاید اسی واقعے کا ذکر کر رہے تھے۔—لوقا ۱۳:۱۔
”حق کیا ہے؟“
پیلاطُس کو خاص طور پر یسوع مسیح کے مقدمے میں فیصلہ کرنے کیلئے یاد کِیا جاتا ہے۔ یہودیوں کے سردارکاہنوں اور بزرگوں نے یسوع پر یہ الزام لگایا کہ وہ خود کو بادشاہ بنانا چاہتا ہے۔ یسوع نے اپنی دفاع میں کہا کہ اُسکا مقصد محض حق پر گواہی دینا ہے۔ مقدمے کے دوران پیلاطُس کو پتہ چلا کہ یسوع روم کے خلاف بغاوت نہیں کر رہا تھا۔ اُس نے یسوع سے طنزاً پوچھا: ”حق کیا ہے؟“ اُسکے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ حق کی کھوج لگانا انسان کی سمجھ سے باہر ہے۔ پھر اُس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا: ”مَیں اس شخص میں کچھ قصور نہیں پاتا۔“—یوحنا ۱۸:۳۷، ۳۸؛ لوقا ۲۳:۴۔
مرقس ۱۵:۷، ۱۰؛ لوقا ۲۳:۲) اسکے علاوہ یہودی باربار قیصر سے پیلاطُس کے بارے شکایت کر چکے تھے۔ پیلاطُس جانتا تھا کہ قیصر ایسے حاکموں کیساتھ سختی سے پیش آتا جو امن لانے میں ناکام ہوتے۔ اسلئے پیلاطُس یہودیوں کے اعتراض کو نظرانداز نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ ہر بات میں یہودیوں کا کہنا مانتا تو اُسکا اختیار ختم ہو جاتا۔ بِلاشُبہ پیلاطُس ایک بڑے مسئلے کا سامنا کر رہا تھا۔
کیا اس فیصلے کیساتھ مقدمہ ختم ہو گیا؟ جینہیں، کیونکہ یہودیوں نے فیصلے کو قبول نہیں کِیا۔ پیلاطُس کو معلوم تھا کہ سردارکاہن حسد ہی کی وجہ سے یسوع پر بغاوت کا الزام لگا رہے تھے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر وہ یسوع کو بری کرے گا تو یہودیوں کو اس بات پر سخت اعتراض ہوگا۔ ویسے بھی مُلک میں بغاوت کا جذبہ بڑھ رہا تھا کیونکہ رومیوں نے برابا نامی ایک باغی اور قاتل کو اپنے ساتھیوں کیساتھ قید کر دیا تھا۔ (جب پیلاطُس کو پتہ چلا کہ یسوع صوبۂگلیل کا ہے تو اُس نے یسوع کو گلیل کے حاکم ہیرودیس انتپاس کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ اُس پر فیصلہ کرے۔ لیکن ہیرودیس نے یسوع کو واپس بھیج دیا۔ پھر پیلاطُس نے ایک روایت پر رُجوع کِیا جسکے مطابق عیدِفسح پر لوگوں کی پسند کے ایک قیدی کو آزاد کر دیا جاتا۔ لیکن لوگ یسوع کی بجائے برابا کو آزادی دلوانا چاہتے تھے۔—لوقا ۲۳:۵-۱۹۔
ہو سکتا ہے کہ پیلاطُس انصاف کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ لیکن وہ اپنا عہدہ کھو دینے کے خطرے میں تھا۔ اسلئے اُس نے لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر اپنے ضمیر کی آواز کو نظرانداز کِیا۔ اُس نے پانی منگوا کر لوگوں کے سامنے ہاتھ دھوئے جس سے وہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ یسوع کے قتل میں اُسکا ہاتھ نہیں ہے۔ * حالانکہ پیلاطُس یسوع کو بےقصور جانتا تھا پھر بھی اُس نے حکم دیا کہ اُسے کوڑے مارے جائیں۔ اُس نے سپاہیوں کو یسوع کو ٹھٹھوں میں اُڑانے، اُس پر تھوکنے اور اُسے مکے مارنے کی اجازت بھی دی۔—متی ۲۷:۲۴-۳۱۔
پھر پیلاطُس نے آخری مرتبہ یسوع کو بری کرنے کی کوشش کی۔ اس پر لوگ اُلٹا پیلاطُس پر قیصر کا مخالف ہونے کا الزام لگانے لگے۔ (یوحنا ۱۹:۱۲) اسلئے پیلاطُس لوگوں کی مرضی کرنے پر راضی ہو گیا۔ ایک عالم پیلاطُس کے اِس فیصلے کے متعلق یوں کہتا ہے: ”پیلاطُس کو اپنے مسئلے کا حل آسان لگا ہوگا۔ ایک عام سے شخص کو سزائےموت دینے سے پورے شہر میں بغاوت کا خطرہ ختم ہو سکتا تھا۔ پیلاطُس کے نزدیک یہ سراسر بےوقوفی ہوتی اگر وہ یسوع کی جان بچانے کی کوشش کرتا۔“
پیلاطُس کا انجام
پیلاطُس کا ذکر تاریخ میں آخری مرتبہ ایک اَور جھگڑے کے سلسلے میں ہوا ہے۔ یوسیفس نے بیان کِیا کہ ایک دن بہت سے سامری کوہِگِرزیم پر جمع ہوئے۔ اُنکا خیال تھا کہ موسیٰ نے وہاں پر ایک خزانہ چھپایا تھا اور وہ اُس خزانے کو تلاش کر رہے تھے۔ پیلاطُس نے ان پر حملہ کِیا جسکے نتیجے میں کچھ لوگوں کا خون بہایا گیا۔ اِس پر سامریوں نے سُوریہ کے حاکمِاعلیٰ کے پاس جا کر پیلاطُس کی شکایت کی۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ آیا اس حاکمِاعلیٰ کی نظر میں پیلاطُس نے غلطی کی تھی یا نہیں۔ بہرحال اُس نے پیلاطُس کو شہر رومہ بھیج دیا تاکہ وہ قیصر کو اپنی کارروائیوں کا حساب دے۔ پیلاطُس رومہ پہنچا بھی نہیں تھا کہ قیصر تبریس فوت ہو گیا۔
ایک رسالے کے مطابق ”اُس وقت سے پیلاطُس کے متعلق صرف روایتیں موجود ہیں۔“ ایسی ایک روایت کے مطابق پیلاطُس مسیحی بن گیا۔ ایتھیوپیا میں اُسے ”سینٹ“ یعنی ولی سمجھا جاتا ہے۔ یوسیبیس نے یسوع کے زمانے کے تقریباً ۳۰۰ سال بعد لکھا کہ یہوداہ اسکریوتی کی طرح پیلاطُس نے بھی خودکشی کر لی تھی۔ البتہ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ پیلاطُس کا کیا انجام ہوا۔
بےشک پیلاطُس ضدی، لاپرواہ اور سنگدل تھا۔ لیکن اُس نے دس سال تک اپنا عہدہ سنبھالے رکھا۔ یہودیہ کے زیادہتر دوسرے حاکموں کے مقابلے میں وہ کافی دیر تک حکومت کرتا رہا۔ لہٰذا رومیوں نے اُسے ایک قابل رہنما سمجھا ہوگا۔ بعض لوگوں نے اُس پر بزدل ہونے کا الزام لگایا ہے کیونکہ اُس نے اپنی حکومت قائم رکھنے کی خاطر یسوع کو قتل کروا دیا تھا۔ دوسروں نے اُسکی دفاع میں کہا ہے کہ پیلاطُس کو انصاف کرنے کیلئے تو نہیں بلکہ رومی علاقوں میں امن اور سلامتی کو فروغ دینے کیلئے حاکم بنایا گیا تھا۔
پیلاطُس کے زمانے میں انصاف کا معیار آج سے بہت مختلف تھا۔ اسکے باوجود اُس زمانے میں بھی کسی حاکم کو ایک بےقصور شخص کو سزا دینے کی اجازت نہیں تھی۔ بہرحال پیلاطُس صرف یسوع مسیح ہی کی وجہ سے آج تک یاد کِیا جاتا ہے۔ ورنہ تاریخ میں اُسے کوئی خاص مقام نہیں دیا جاتا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 19 ہاتھ دھونے کی روایت رومیوں میں نہیں بلکہ یہودیوں میں عام تھی۔ ہاتھ دھونے والا یہ ظاہر کرتا کہ اُسکے ہاتھ سے خون نہیں ہوا۔—استثنا ۲۱:۶، ۷۔
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
قیصریہ میں دریافت کی گئی اِس تحریر میں یہودیہ کے حاکم پُنطیُس پیلاطُس کا ذکر ہوا ہے