”پاک صحائف کی سب سے پُرانی تحریریں“
”پاک صحائف کی سب سے پُرانی تحریریں“
کوئی ۲۵ سال پہلے کی بات ہے کہ آثارِقدیمہ کے چند ماہروں نے یروشلیم کے نزدیک وادیِہنوم کے ایک غار میں دو چھوٹے سے چاندی کے ورق دریافت کئے۔ ان ورقوں پر توریت کے کچھ صحیفے لکھے ہوئے تھے۔ یہ ورق ساتویں صدی قبلِمسیح میں تیار کئے گئے تھے۔ یہ بابلی فوج کے ہاتھوں شہر یروشلیم کے تباہ ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ ان ورقوں پر گنتی ۶:۲۴-۲۶ کے الفاظ درج ہیں۔ اسکے علاوہ ان میں کئی مرتبہ خدا کا نام یہوواہ بھی آیا ہے۔ ان ورقوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”ان سے پُرانی کوئی ایسی چیز دریافت نہیں ہوئی جس پر بائبل کے صحیفے درج ہوں۔“
البتہ کئی علما نے اعتراض کِیا کہ یہ ورق ساتویں صدی میں نہیں بلکہ دوسری صدی قبلِمسیح میں تیار کئے گئے تھے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ پچّیس سال پہلے ان ورقوں کی جو تصویریں اُتار کر علما کو تحقیق کرنے کیلئے دی گئیں وہ زیادہ صاف نہیں تھیں۔ اسلئے علما کو ان پر تحقیق کرنا مشکل لگا۔ اس بات کا اندازہ لگانے کیلئے کہ یہ ورق واقعی کتنے پُرانے ہیں، حال ہی میں علما کی ایک ٹیم نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نئی تصویریں کھینچی ہیں۔ یہ تصویریں بڑی صاف ہیں۔ ان پر تحقیق کرنے سے علما نے کیا معلومات حاصل کی ہیں؟
ان تحقیقات سے ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ورق ساتویں صدی ہی میں تیار کئے گئے تھے۔ علما نے اس بات کے تین ثبوت پیش کئے ہیں۔ سب سے پہلا ثبوت وہ جگہ ہے جہاں سے ان ورقوں کو دریافت کِیا گیا ہے۔ دوسرا ثبوت ان ورقوں پر درج حروف کو لکھنے کا انداز یا طریقہ ہے۔ اور تیسرا ثبوت الفاظ کا اِملا یعنی اُنکو ہجے کرنے کا طریقہ ہے۔ علما کی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ ورق کس صدی میں تیار کئے گئے تھے اسکے بارے میں ”تینوں ثبوت ہمیں ایک ہی نتیجے پر پہنچاتے ہیں۔“
ان ورقوں کے بارے میں جو نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں اس پر ایک رسالے میں یوں لکھا ہے: ”بہتیرے علما پہلے ہی سے جس نتیجے پر پہنچ چکے تھے اب ہمارے پاس اسکا ٹھوس ثبوت موجود ہے۔ یہ دو ورق واقعی پاک صحائف کی سب سے پُرانی تحریریں ہیں جو آج تک دریافت ہوئی ہیں۔“
[صفحہ ۳۲ پر تصویروں کے حوالہجات]
;.Cave: Pictorial Archive )Near Eastern History( Est
inscriptions: Photograph © Israel Museum, Jerusalem; courtesy
of Israel Antiquities Authority