اپنے پڑوسی سے محبت رکھنے کا مطلب
اپنے پڑوسی سے محبت رکھنے کا مطلب
”اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔“—متی ۲۲:۳۹۔
۱. ہم خدا کے لئے اپنی محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
یہوواہ خدا اپنے پرستاروں سے کس بات کی توقع کرتا ہے؟ یسوع نے چند سادہ اور واضح الفاظ میں اس سوال کا جواب دیا۔ اُس نے بیان کِیا کہ سب سے بڑا حکم یہ ہے کہ تُو یہوواہ اپنے خدا سے اپنے سارے دل، ساری جان، ساری عقل اور ساری طاقت سے محبت رکھ۔ (متی ۲۲:۳۷؛ مرقس ۱۲:۳۰) جیساکہ ہم پچھلے مضمون میں دیکھ چکے ہیں، جو محبت خدا نے ہمارے لئے دکھائی ہے اُس کے جواب میں ہم پر بھی فرض ہے کہ خدا کی فرمانبرداری کرنے اور اُس کے حکموں کو ماننے سے اُس کے لئے محبت ظاہر کریں۔ خدا سے محبت رکھنے والے لوگوں کے لئے اُس کی مرضی پوری کرنا کوئی بوجھ نہیں ہے بلکہ اس سے اُنہیں خوشی حاصل ہوتی ہے۔—زبور ۴۰:۸؛ ۱-یوحنا ۵:۲، ۳۔
۲، ۳. ہمیں اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کے حکم پر کیوں توجہ دینی چاہئے اور اس سے کونسے سوال پیدا ہوتے ہیں؟
۲ یسوع کے اگلے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ دوسرے بڑے حکم کا تعلق پہلے سے ہے۔ اُس نے فرمایا: ”اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔“ (متی ۲۲:۳۹) ہمارے پاس اس حکم پر توجہ دینے کی معقول وجہ ہے۔ جس دَور میں ہم رہ رہے ہیں اس میں خودغرضی اور محبت کی کمی پائی جاتی ہے۔ پولس رسول نے ”اخیر زمانہ“ کی بابت الہام سے لکھتے ہوئے بیان کِیا کہ لوگ دوسروں سے محبت کرنے کی بجائے اپنی ذات، مالودولت اور عیشوعشرت سے محبت رکھیں گے۔ اُن کے اندر ”طبعی محبت“ نہیں ہوگی یا جیسے ایک دوسرا ترجمہ بیان کرتا ہے وہ ”اپنے خاندانوں کے لئے محبت کی کمی“ ظاہر کریں گے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۴) یسوع مسیح نے پیشینگوئی کی: ”بہتیرے . . . ایک دوسرے کو پکڑوائیں گے اور ایک دوسرے سے عداوت رکھیں گے۔ . . . بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔“—متی ۲۴:۱۰، ۱۲۔
۳ غور کریں کہ یسوع نے یہ نہیں کہا تھا کہ سب کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔ ہر دَور میں یہوواہ خدا کی مرضی کے مطابق محبت ظاہر کرنے والے لوگ رہے ہیں۔ یہوواہ خدا سے حقیقی محبت رکھنے والے لوگ دوسروں کو اُسی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے وہ دیکھتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا پڑوسی کون ہے؟ ہمیں اُس کے لئے کیسے محبت ظاہر کرنی چاہئے؟ بائبل ہمیں اِن اہم سوالات کے جواب حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
ہمارا پڑوسی کون ہے؟
۴. احبار ۱۹ باب کے مطابق، یہودیوں کو کن کے لئے محبت ظاہر کرنی تھی؟
۴ جب یسوع نے فریسیوں کو یہ بتایا کہ دوسرا بڑا حکم اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھنا ہے تو دراصل وہ اسرائیل کو دئے جانے والے ایک خاص حکم کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ یہ حکم احبار ۱۹:۱۸ میں درج ہے۔ اسی باب میں یہودیوں سے کہا گیا تھا کہ اُنہیں ساتھی اسرائیلیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی اپنا پڑوسی سمجھنا تھا۔ اس باب کی ۳۴ آیت میں بیان کِیا گیا تھا: ”جو پردیسی تمہارے ساتھ رہتا ہو اُسے دیسی کی مانند سمجھنا بلکہ تُو اُس سے اپنی مانند محبت کرنا اسلئےکہ تُم ملکِمصرؔ میں پردیسی تھے۔“ پس اُنہیں غیریہودیوں، بالخصوص نومرید یہودیوں کے ساتھ بھی محبت سے پیش آنا تھا۔
۵. اپنے پڑوسی سے محبت رکھنے کی بابت یہودی کیا سمجھتے تھے؟
۵ تاہم، یسوع کے زمانہ کے یہودی پیشوا اس معاملے میں مختلف رائے رکھتے تھے۔ بعض تعلیم دیتے تھے کہ ”دوست“ اور ”پڑوسی“ کی اصطلاح کا اطلاق صرف یہودیوں پر ہوتا ہے۔ لہٰذا، غیریہودیوں سے نفرت کی جانی چاہئے۔ ایسے اُستاد یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ خداپرست لوگوں کو بےدینوں کو گھٹیا خیال کرنا چاہئے۔ ایک کتاب بیان کرتی ہے: ”ایسے ماحول میں نفرت کو ختم کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ ایسے میں تو نفرت اَور زیادہ بڑھتی ہے۔“
۶. اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کے بارے میں یسوع نے کونسے دو نکات کی وضاحت کی؟
۶ یسوع مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے روشنی ڈالی کہ کس کے لئے محبت ظاہر کی جانی چاہئے۔ یسوع نے فرمایا: ”تُم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دُشمن سے عداوت۔ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔ تاکہ تُم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔“ (متی ۵:۴۳-۴۵) یہاں یسوع نے دو نکات کو واضح کِیا۔ پہلا، یہوواہ نیکوں اور بدوں دونوں پر مہربان ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمیں اُس کے نمونے کی نقل کرنی چاہئے۔
۷. یسوع نے سامری کی جو تمثیل بیان کی اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
۷ ایک دوسرے موقع پر، شرع کے ایک عالم نے یسوع مسیح سے پوچھا: ”میرا پڑوسی کون ہے؟“ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے یسوع نے ایک تمثیل پیش کی۔ ایک سامری شخص کی ملاقات ایک یہودی سے ہوتی ہے جسے لوٹنے کے بعد ماراپیٹا جاتا ہے۔ اگرچہ یہودی سامریوں سے نفرت کرتے تھے توبھی اِس سامری نے نہ صرف یہودی کی مرہمپٹی کی بلکہ اُسے مزید علاج کے لئے ایک سرای میں بھی لے گیا۔ اس تمثیل سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ ہمیں صرف اُن لوگوں کو اپنا پڑوسی خیال نہیں کرنا چاہئے جو ہماری نسل، قومیت یا مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔—لوقا ۱۰:۲۵، ۲۹، ۳۰، ۳۳-۳۷۔
اپنے پڑوسی سے محبت رکھنے کا مطلب
۸. احبار ۱۹ باب میں محبت ظاہر کرنے کی بابت کیا بیان کِیا گیا تھا؟
۸ خدا سے محبت رکھنے کی طرح پڑوسی سے محبت رکھنا محض ایک احساس نہیں اس میں کچھ کرنا بھی شامل ہے۔ اچھا ہوگا کہ احبار ۱۹ باب میں درج اس حکم کے سیاقوسباق پر غور کریں جہاں خدا نے اسرائیلیوں کو اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھنے کی تاکید کی تھی۔ وہاں ہم پڑھتے ہیں کہ اُنہیں فصل کی کٹائی کے وقت مصیبتزدہ اور پردیسیوں کو یاد رکھنا تھا۔ چوری کرنے، دھوکا دینے یا جھوٹ بولنے سے سختی سے منع کِیا گیا تھا۔ عدالتی معاملات میں بھی طرفداری سے گریز کرنا تھا۔ اگرچہ اُنہیں بوقتِضرورت ایک دوسرے کو تنبیہ کرنی تھی توبھی اُنہیں کہا گیا تھا: ”تُو اپنے دل میں اپنے بھائی سے بغض نہ رکھنا۔“ ان احکام اور دیگر کئی حکموں کا خلاصہ یہ تھا: ”اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کرنا۔“—احبار ۱۹:۹-۱۱، ۱۵، ۱۷، ۱۸۔
۹. یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کو دوسری قوموں سے الگ رہنے کا حکم کیوں دیا تھا؟
۹ اگرچہ اسرائیلیوں نے دوسروں کے لئے محبت ظاہر کرنی تھی توبھی اُنہیں جھوٹے معبودوں کی پرستش کرنے والے لوگوں سے الگ رہنا تھا۔ یہوواہ خدا نے اُنہیں بُری صحبتوں کے خطرات اور نتائج سے آگاہ کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر، یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کو اِن قوموں کی بابت حکم دیا: ”تُو اُن سے بیاہشادی بھی نہ کرنا۔ نہ اُن کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اور نہ اپنے بیٹوں کے لئے اُن کی بیٹیاں لینا۔ کیونکہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کر دیں گے تاکہ وہ اَور معبودوں کی عبادت کریں۔ یوں [یہوواہ] کا غضب تُم پر بھڑکے گا۔“—استثنا ۷:۳، ۴۔
۱۰. ہمیں کس بات سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے؟
۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳) ہمیں نصیحت کی گئی ہے کہ ”بےایمانوں کے ساتھ ناہموار جُوئے میں نہ جتو“ یعنی اُن لوگوں سے خبردار رہیں جو مسیحی کلیسیا کا حصہ نہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۶:۱۴) اس کے علاوہ، مسیحیوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ ”صرف خداوند میں“ شادی کریں۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۹) تاہم، ہمیں ایسے لوگوں کو حقیر خیال نہیں کرنا چاہئے جو یہوواہ خدا کی پرستش نہیں کرتے۔ یسوع مسیح نے گنہگاروں کے لئے اپنی جان قربان کی تھی اور بُرے کام کرنے والے بہت سے لوگ اپنے طورطریقے بدلنے سے خدا کے ساتھ میلملاپ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔—رومیوں ۵:۸؛ ۱-کرنتھیوں ۶:۹-۱۱۔
۱۰ اسی طرح مسیحیوں کو بھی ایسے لوگوں سے تعلقات پیدا کرتے وقت خبردار رہنے کی ضرورت ہے جو اُن کے ایمان کو کمزور کر سکتے ہیں۔ (۱۱. یہوواہ خدا کی خدمت نہ کرنے والے لوگوں کے لئے محبت ظاہر کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے، اور کیوں؟
۱۱ خدا کی خدمت نہ کرنے والے لوگوں کے لئے محبت ظاہر کرنے کے لئے ہم یہوواہ خدا کے نمونے کی نقل کر سکتے ہیں۔ اگرچہ وہ بدی سے نفرت کرتا ہے توبھی وہ محبت ظاہر کرتے ہوئے تمام لوگوں کو اپنی بُری راہوں سے باز آنے اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ (حزقیایل ۱۸:۲۳) یہوواہ خدا ”چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“ (۲-پطرس ۳:۹) اُس کی مرضی ہے کہ ”سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔“ (۱-تیمتھیس ۲:۴) اسی لئے یسوع مسیح نے بھی اپنے پیروکاروں کو منادی کرنے، تعلیم دینے اور ”سب قوموں کو شاگرد“ بنانے کا حکم دیا تھا۔ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) شاگرد بنانے کے اس کام میں حصہ لینے سے ہم خدا اور پڑوسی کے علاوہ اپنے دُشمنوں کے لئے بھی محبت ظاہر کرتے ہیں!
مسیحی بہنبھائیوں کے لئے محبت
۱۲. یوحنا رسول نے بھائیوں سے محبت رکھنے کی بابت کیا لکھا؟
۱۲ پولس رسول نے لکھا: ”جہاں تک موقع ملے سب کے ساتھ نیکی کریں خاصکر اہلِایمان کے ساتھ۔“ (گلتیوں ۶:۱۰) مسیحیوں کے طور پر ہمارے لئے اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے محبت دکھانا فرض ہے۔ یہ کتنا ضروری ہے؟ اس اہم نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے یوحنا رسول نے لکھا: ”جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ خونی ہے . . . اگر کوئی کہے کہ مَیں خدا سے محبت رکھتا ہوں اور وہ اپنے بھائی سے عداوت رکھے تو جھوٹا ہے کیونکہ جو اپنے بھائی سے جِسے اُس نے دیکھا ہے محبت نہیں رکھتا وہ خدا سے بھی جِسے اُس نے نہیں دیکھا محبت نہیں رکھ سکتا۔“ (۱-یوحنا ۳:۱۵؛ ۴:۲۰) یہ کافی سخت الفاظ ہیں۔ یسوع مسیح نے ”خونی“ اور ”جھوٹا“ جیسے الفاظ شیطان اِبلیس کے لئے استعمال کئے تھے۔ (یوحنا ۸:۴۴) ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ الفاظ ہمارے لئے استعمال کئے جائیں!
۱۳. ہم اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے کن طریقوں سے محبت ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۳ یہوواہ خدا سچے مسیحیوں کو ”آپس میں محبت کرنے کی . . . تعلیم“ دیتا ہے۔ (۱-تھسلنیکیوں ۴:۹) ہمیں ”کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت“ رکھنی چاہئے۔ (۱-یوحنا ۳:۱۸) ہماری محبت ”بےریا“ ہونی چاہئے۔ (رومیوں ۱۲:۹) محبت ہمیں ہمدرد، مہربان، صابر، معاف کرنے والا، حسد نہ کرنے والا، شیخی نہ مارنے والا اور اپنی بہتری نہ چاہنے والا بننے کی تحریک دیتی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۴، ۵؛ افسیوں ۴:۳۲) یہ ہمیں ”ایک دوسرے کی خدمت“ کرنے پر اُکساتی ہے۔ (گلتیوں ۵:۱۳) یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو آپس میں ویسی ہی محبت رکھنے کی تاکید کی جیسی اُس نے اُن سے محبت رکھی تھی۔ (یوحنا ۱۳:۳۴) اس لئے ایک مسیحی کو اپنے بہنبھائیوں کے لئے بوقتِضرورت جان دینے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔
۱۴. ہم خاندان کے اندر محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۴ ایک مسیحی خاندان کے اندر اور خاص طور پر شوہر اور بیوی کے درمیان محبت ہونی چاہئے۔ شادی کا رشتہ اسقدر قریبی ہے کہ پولس نے اس کی بابت بیان کِیا: ”شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔ جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے۔“ (افسیوں ۵:۲۸) پولس پانچ آیات کے بعد دوبارہ اس نصیحت کو دُہراتا ہے۔ اپنی بیوی سے محبت رکھنے والا شوہر ملاکی کے زمانے کے بےوفا اسرائیلیوں کی نقل نہیں کرے گا۔ (ملاکی ۲:۱۴) وہ اپنی بیوی کے لئے محبت ظاہر کرے گا۔ وہ اُس سے ویسے ہی محبت رکھے گا جیسے مسیح نے کلیسیا سے محبت رکھی تھی۔ اسی طرح محبت ایک بیوی کو بھی اپنے شوہر کا گہرا احترام کرنے کی ترغیب دے گی۔—افسیوں ۵:۲۵، ۲۹-۳۳۔
۱۵. مسیحی بہنبھائیوں کے لئے دکھائی جانے والی محبت نے بعض کو کیا کہنے اور کرنے کی تحریک دی؟
۱۵ درحقیقت، ایسی محبت ہی سچے مسیحیوں کا شناختی نشان ہے۔ یسوع مسیح نے فرمایا: ”اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانیں گے کہ تُم میرے شاگرد ہو۔“ (یوحنا ۱۳:۳۵) جب ہم ایک دوسرے کے لئے محبت ظاہر کرتے ہیں تو اس سے لوگ سچے خدا کی طرف آنے کی تحریک پاتے ہیں جس سے ہم محبت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، موزمبیق سے ایک یہوواہ کے گواہ خاندان کی بابت یہ رپورٹ موصول ہوئی۔ ”ہم نے اس سے پہلے کبھی ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اچانک دوپہر میں تیز آندھی چلنے لگی اور اس کے ساتھ ہی شدید بارش اور اولے پڑنا شروع ہو گئے۔ تیز ہوائیں ہمارے سرکنڈوں سے بنے گھر اور اُن کی لوہے کی چادروں سے بنی چھتیں اُڑا لے گئیں۔ جب اردگرد کی کلیسیاؤں سے آنے والے بھائیوں نے ہمارے گھر کو دوبارہ تعمیر کر دیا تو ہمارے پڑوسی حیران رہ گئے۔ وہ کہنے لگے کہ آپ کا مذہب بہت اچھا ہے۔ ہمارے چرچ نے کبھی اس طرح ہماری مدد نہیں کی۔ ہم نے اپنی بائبل کھول کر اُنہیں یوحنا ۱۳:۳۴، ۳۵ کا صحیفہ دکھایا۔ اس سے ہمارے بہت سے پڑوسیوں کو بائبل سیکھنے کی تحریک ملی ہے۔“
انفرادی طور پر محبت دکھانا
۱۶. اجتماعی طور پر اور انفرادی طور پر دوسروں کے لئے محبت دکھانے میں کیا فرق ہے؟
۱۶ پڑوسیوں کیلئے اجتماعی طور پر محبت دکھانا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔ تاہم، انفرادی طور پر دوسروں کے لئے محبت دکھانا ایک فرق بات ہے۔ مثال کے طور پر، بعض لوگ دوسروں کے لئے محبت ظاہر کرنے کی خاطر کسی فلاحی ادارے میں عطیات جمع کروا دیتے ہیں۔ بیشک یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ ہم اپنے پڑوسی سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن اپنے ساتھ کام کرنے والے کسی ایسے شخص کے لئے جو ہمارے لئے کچھ نہیں کرتا یا اپنے پڑوس میں رہنے والے ایک بدتمیز شخص کے لئے یا پھر ہمیں بارہا مایوس کر دینے والے کسی دوست کے لئے محبت دکھانا بہت مشکل ہے۔
۱۷، ۱۸. یسوع مسیح نے انفرادی طور پر لوگوں کے لئے کیسے محبت ظاہر کی، اور اُس نے کس مقصد کے تحت یہ سب کچھ کِیا؟
۱۷ انفرادی طور پر محبت دکھانے کے سلسلے میں ہم یسوع مسیح سے سیکھ سکتے ہیں جس نے خدا کی تمام خوبیاں ظاہر کی تھیں۔ اگرچہ وہ دُنیا کے گُناہ متی ۹:۲۰-۲۲؛ مرقس ۱:۴۰-۴۲؛ ۷:۲۶، ۲۹، ۳۰؛ یوحنا ۱:۲۹) اسی طرح ہم بھی اپنے روزمرّہ برتاؤ سے اپنے پڑوسیوں کے لئے انفرادی طور پر محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔
اُٹھا لے جانے کے لئے اس زمین پر آیا تھا توبھی اُس نے انفرادی طور پر ایک بیمار عورت، ایک کوڑھی اور ایک بچی کے لئے محبت دکھائی۔ (۱۸ تاہم، ہمیں ایک بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ پڑوسی کے لئے محبت دکھانے کا خدا کے لئے محبت دکھانے سے گہرا تعلق ہے۔ یسوع مسیح نے غریبوں کی مدد کی، بیماروں کو شفا بخشی، بھوکوں کو کھانا کھلایا اور لوگوں کو تعلیم بھی دی۔ اُس کے یہ سب کچھ کرنے کا مقصد یہوواہ خدا کے ساتھ اُن کا میلملاپ کرانا تھا۔ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۹) یسوع مسیح نے یہ سب کچھ خدا کے جلال کے لئے کِیا۔ پس کبھی نہ بھولیں کہ یسوع نے اُس خدا کی عکاسی کی جس سے وہ محبت رکھتا تھا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۳۱) یسوع مسیح کے نمونے کی نقل کرنے سے ہم بھی اس شریر دُنیا کا حصہ نہ ہونے کے باوجود پڑوسی کے لئے حقیقی محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔
ہم اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کیسے رکھ سکتے ہیں؟
۱۹، ۲۰. اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھنے کا کیا مطلب ہے؟
۱۹ یسوع مسیح نے فرمایا: ”اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔“ اپنی بابت فکر رکھنا اور اپنی عزتِنفس کو قائم رکھنا اچھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس حکم کی اتنی اہمیت نہ رہتی۔ اپنےآپ سے مناسب محبت رکھنے کو اُس خودغرضانہ محبت کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا جس کا ذکر پولس رسول نے ۲-تیمتھیس ۳:۲ میں کِیا تھا۔ یہ دراصل اپنےآپ سے معقول محبت رکھنا ہے۔ ایک بائبل عالم اسے یوں بیان کرتا ہے: ”اپنی ذات سے متوازن محبت رکھنے کو نہ تو خودپرستی اور نہ ہی اپنی ذات سے لاپرواہی کا نام دیا جا سکتا ہے۔“
۲۰ دوسروں سے اپنے جیسی محبت رکھنے کا مطلب ہے کہ ہم اُنہیں اپنے جیسا خیال کرتے اور اُن کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسے سلوک کی ہم اُن سے توقع کرتے ہیں۔ یسوع مسیح نے فرمایا: ”پس جوکچھ تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تُم بھی اُن کے ساتھ کرو۔“ (متی ۷:۱۲) غور کریں کہ یہاں یسوع یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیں لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ ماضی میں وہ ہمارے ساتھ کیسے پیش آئے تھے۔ اس کی بجائے، ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم دوسروں سے کس قسم کے برتاؤ کی توقع کریں گے اور پھر ویسے ہی اُن کے ساتھ پیش آئیں۔ یہ بھی غور کریں کہ یسوع مسیح نے اپنی بات میں صرف دوستوں یا مسیحی بہنبھائیوں کا ذکر نہیں کِیا تھا۔ اُس نے لفظ ”لوگ“ استعمال کِیا جس سے شاید یسوع یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ ہمیں سب لوگوں کے ساتھ اسی طرح پیش آنا چاہئے۔
۲۱. انسانوں کے لئے محبت ظاہر کرنے سے ہم کیا ظاہر کرتے ہیں؟
۲۱ پڑوسی سے محبت رکھنا ہمیں بُرائی سے بھی بچاتا ہے۔ پولس رسول نے بیان کِیا: ”یہ باتیں کہ زنا نہ کر۔ خون نہ کر۔ چوری نہ کر۔ لالچ نہ کر اور ان کے سوا اَور جو کوئی حکم ہو اُن سب کا خلاصہ اس بات میں پایا جاتا ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔ محبت اپنے پڑوسی سے بدی نہیں کرتی۔“ (رومیوں ۱۳:۹، ۱۰) محبت ہمیں مختلف طریقوں سے دوسروں کے ساتھ نیکی کرنے کی تحریک دے گی۔ ساتھی انسانوں سے محبت رکھنے سے ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنے خالق یہوواہ خدا سے محبت رکھتے ہیں جس نے انسانوں کو اپنی شبیہ پر خلق کِیا ہے۔—پیدایش ۱:۲۶۔
آپ کیسے جواب دیں گے؟
• ہمیں کس کے لئے، اور کیوں محبت دکھانی چاہئے؟
• ہم خدا کی خدمت نہ کرنے والے لوگوں کے لئے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
• بائبل مسیحی بہنبھائیوں سے محبت کو کیسے بیان کرتی ہے؟
• اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھنے کا کیا مطلب ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۳۰ پر تصویر]
یسوع مسیح نے انفرادی طور پر بھی محبت دکھائی
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
”میرا پڑوسی کون ہے؟“