صبر کے ساتھ یہوواہ کے دن کا انتظار کریں
صبر کے ساتھ یہوواہ کے دن کا انتظار کریں
’اپنے ایمان پر صبر بڑھاؤ۔‘—۲-پطرس ۱:۵-۷۔
۱، ۲. صبر یا برداشت کیا ہے، اور مسیحیوں کو اس کی ضرورت کیوں ہے؟
یہوواہ کا روزِعظیم بہت قریب ہے۔ (یوایل ۱:۱۵؛ صفنیاہ ۱:۱۴) مسیحیوں کے طور پر، ہم نے خدا کے وفادار رہنے کا عہد کِیا ہے۔ اس لئے ہم اُس وقت کے منتظر ہیں جب یہوواہ خدا کی حاکمیت کی سربلندی ہوگی۔ اس دوران ہمیں اپنے ایمان کی وجہ سے نفرت، رسوائی، اذیت اور موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (متی ۵:۱۰-۱۲؛ ۱۰:۲۲؛ مکاشفہ ۲:۱۰) مشکلات کا مقابلہ کرنے کی خوبی کو صبر یا برداشت کہتے ہیں۔ پطرس رسول نے ہمیں تاکید کی: ’اپنے ایمان پر صبر بڑھاؤ۔‘ (۲-پطرس ۱:۵-۷) ہمیں برداشت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یسوع مسیح نے کہا: ”جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا۔“—متی ۲۴:۱۳۔
۲ ہمیں بیماری، کسی عزیز کی موت کے غم اور دیگر آزمائشوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایسی حالتوں میں ہمارا ایمان کمزور پڑ جائے تو شیطان کتنا خوش ہوگا! (لوقا ۲۲:۳۱، ۳۲) یہوواہ خدا کی مدد سے ہم مختلف آزمائشوں میں اپنے ایمان پر قائم رہ سکتے ہیں۔ (۱-پطرس ۵:۶-۱۱) آئیں چند ایسے سچے واقعات پر غور کریں جو ثابت کرتے ہیں کہ ہم صبر کے ساتھ یہوواہ کے دن کا انتظار کر سکتے اور اپنے ایمان پر قائم رہ سکتے ہیں۔
بیماری اُنہیں روک نہ سکی
۳، ۴. مثال سے ظاہر کریں کہ ہم بیماری کے باوجود، وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر سکتے ہیں۔
۳ آجکل، خدا معجزانہ طور پر ہمیں شفا تو نہیں دیتا لیکن وہ ہمیں بیماری کو برداشت کرنے کی طاقت عطا کرتا ہے۔ (زبور ۴۱:۱-۳) شارون نامی ایک بہن نے بیان کِیا: ”جب سے مَیں نے ہوش سنبھالا ہے، مَیں ویلچیئر استعمال کر رہی ہے۔ پیدائش ہی سے دماغی فالج میں مبتلا ہونے کی وجہ سے میری بچپن کی خوشیاں چھن گئیں۔“ یہوواہ خدا اور مکمل صحت عطا کرنے کے اُس کے وعدوں کی بابت سیکھنے سے شارون کو اُمید حاصل ہوئی۔ اگرچہ اُسے بولنے اور چلنے میں مشکل ہوتی ہے توبھی وہ منادی کرنے سے خوشی حاصل کرتی ہے۔ کوئی ۱۵ سال پہلے اُس نے کہا: ”ہو سکتا ہے کہ میری صحت دنبدن خراب ہوتی جائے مگر خدا پر میرا توکل اور اُس کے ساتھ میرا رشتہ ہی میری زندگی ہے۔ مَیں یہوواہ خدا کی مدد اور اس کے لوگوں کا حصہ ہونے کے لئے بہت زیادہ خوش ہوں!“
۴ پولس رسول نے تھسلنیکے کے مسیحیوں کو نصیحت کی: ”کمہمتوں کو دلاسا دو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ) سخت مایوسی یا نااُمیدی، ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔ سن ۱۹۹۳ میں، شارون نے لکھا: ”سخت مایوسی کی وجہ سے مَیں . . . تین سال تک ڈپریشن کا شکار رہی۔ . . . مجھے کلیسیا کے بزرگوں کی طرف سے تسلی اور مشورت حاصل ہوئی۔ . . . ۵:۱۴مینارِنگہبانی رسالے کے ذریعے یہوواہ خدا نے ڈپریشن سے نپٹنے کے لئے میری مدد کی۔ جیہاں، وہ اپنے لوگوں کی فکر رکھتا اور اُن کے جذباتواحساسات کو سمجھتا ہے۔“ (۱-پطرس ۵:۶، ۷) شارون یہوواہ خدا کے روزِعظیم کا انتظار کرتے ہوئے وفاداری سے اُس کی خدمت کر رہی ہے۔
۵. اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ مسیحی شدید دباؤ میں بھی برداشت کر سکتے ہیں؟
۵ بعض مسیحی اپنے ماضی کے تجربات کی وجہ سے شدید دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔ ہارلی نامی ایک بھائی نے دوسری عالمی جنگ میں بہت زیادہ قتلوغارت دیکھا جس کی وجہ سے اُسے ڈراؤنے خواب آتے تھے۔ اکثر وہ سوتے میں چلّانے لگتا: ”خبردار! ہوشیار!“ جاگنے پر وہ پسینے سے بھیگا ہوتا۔ تاہم، وہ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کے قابل ہو گیا اور ایک وقت آیا کہ ایسے خوابوں کی شدت اور کثرت کم ہو گئی۔
۶. ایک مسیحی نے جذباتی مسائل کا مقابلہ کیسے کِیا؟
۶ ایک مسیحی بھائی کو نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے گھرباگھر منادی کرنا مشکل لگتا تھا۔ اس کے باوجود، وہ منادی کرنے کی کوشش کرتا کیونکہ وہ اس بات سے واقف تھا کہ یہ اُس کے اور اُس کے سننے والوں کے لئے نجات کا باعث ہوگا۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۶) بعضاوقات اُسے اگلے دروازے پر دستک دینا بہت مشکل لگتا تھا۔ مگر وہ کہتا ہے: ”کچھ دیر کے بعد مَیں اپنے جذبات پر قابو پانے کے قابل ہو جاتا اور اگلے دروازے پر دستک دیتا اور پھر کوشش کرتا۔ منادی میں باقاعدہ حصہ لینے سے مَیں خدا کے ساتھ ایک اچھا رشتہ برقرار رکھنے کے قابل ہوا۔“ اس بھائی کو اجلاسوں پر حاضر ہونا بھی مشکل لگتا تھا لیکن وہ روحانی رفاقت کی اہمیت کو سمجھتا تھا۔ لہٰذا، وہ حاضر ہونے کی بھرپور کوشش کرتا تھا۔—عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
۷. بعض مسیحی دوسروں کے سامنے بات کرنے اور اجلاس پر حاضر ہونے سے خوفزدہ ہونے کے باوجود کیسے ایمان پر قائم رہتے ہیں؟
۷ بعض مسیحیوں کو فوبیا کا مرض لاحق ہوتا ہے یعنی وہ کچھ خاص حالتوں یا چیزوں سے بہت زیادہ خوف محسوس کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ دوسروں کے سامنے بات کرنے یا اجلاس پر حاضر ہونے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ ذرا اس بات کا تصور کریں کہ اُنہیں اجلاسوں پر تبصرہ کرنا یا مسیحی خدمتی سکول میں تقریر دینا کتنا مشکل لگتا ہوگا! مگر ایسی صورتحال کے باوجود وہ اپنے ایمان پر قائم ہیں۔ وہ اجلاسوں پر آتے اور اُن میں حصہ لیتے ہیں اس لئے ہم اُن کی بہت زیادہ قدر کرتے ہیں۔
۸. جذباتی مسائل کا سامنا کرتے وقت کونسی چیز خاص طور پر فائدہمند ہوتی ہے؟
۸ جذباتی مسائل کا سامنا کرنے والے اشخاص زیادہ آرام اور نیند سے ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر سے مدد لینا بھی مفید ہو سکتا ہے۔ تاہم، دُعا کے ذریعے خدا پر بھروسا خاص طور پر فائدہمند ہوتا ہے۔ زبور ۵۵:۲۲ میں بیان کِیا گیا: ”اپنا بوجھ [یہوواہ] پر ڈالدے۔ وہ تجھے سنبھالے گا۔ وہ صادق کو کبھی جنبش نہ کھانے دے گا۔“ سب سے بڑھکر، ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل“ کریں۔—امثال ۳:۵، ۶۔
کسی عزیز کی موت کے غم کو برداشت کرنا
۹-۱۱. (ا) کسی عزیز کی موت کے غم کو برداشت کرنے میں کونسی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟ (ب) کسی عزیز کی موت کے غم کو برداشت کرنے میں حنّاہ کی مثال ہمارے لئے کیسے مددگار ہو سکتی ہے؟
۹ جب موت کی وجہ سے خاندان کا کوئی فرد ہم سے جُدا ہو جاتا ہے تو یہ شدید غم کا باعث ہوتا ہے۔ ابرہام نے اپنی پیاری بیوی سارہ کی وفات پر ماتم کِیا۔ (پیدایش ۲۳:۲) یہانتککہ اپنے دوست لعزر کی موت پر یسوع کے بھی ”آنسو بہنے لگے“ تھے۔ (یوحنا ۱۱:۳۵) لہٰذا، کسی عزیز کی موت پر غمزدہ ہونا اور رونا فطرتی بات ہے۔ تاہم، سچے مسیحی جانتے ہیں کہ مُردے زندہ ہوں گے۔ (اعمال ۲۴:۱۵) لہٰذا، وہ ”اَوروں کی مانند جو نااُمید ہیں غم“ نہیں کرتے۔—۱-تھسلنیکیوں ۴:۱۳۔
۱۰ ہم کسی عزیز کی موت کے غم کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں یہ تمثیل مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ جب ہمارا کوئی دوست سفر پر جاتا ہے تو ہم عام طور پر بہت زیادہ افسردہ نہیں ہوتے چونکہ ہمیں اُس کے واپس آنے اور دوبارہ ملنے کی اُمید ہوتی ہے۔ کسی وفادار مسیحی کی موت کو اسی نظر سے دیکھنے سے ہمارا غم کم ہو سکتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ مُردوں میں سے زندہ ہوگا۔—واعظ ۷:۱۔
۱۱ ”ہر طرح کی تسلی کے خدا“ پر مکمل بھروسا کرنے سے ہمیں اپنے عزیز کی ۲-کرنتھیوں ۱:۳، ۴) پہلی صدی میں رہنے والی بیوہ حنّاہ نے جوکچھ کِیا اُس پر غور کرنے سے بھی ہماری مدد ہوگی۔ وہ اپنی شادی کے صرف سات سال بعد بیوہ ہو گئی۔ لیکن ۸۴ سال کی عمر میں بھی وہ ہیکل میں یہوواہ کی خدمت کر رہی تھی۔ (لوقا ۲:۳۶-۳۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی خداپرست زندگی نے اُسے اپنے غم اور تنہائی پر قابو پانے میں مدد دی ہوگی۔ مسیحی کاموں میں باقاعدہ حصہ لینا جن میں منادی کرنا بھی شامل ہے کسی عزیز کی موت کے غم کو برداشت کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔
موت کے غم کو برداشت کرنے میں مدد ملے گی۔ (مختلف آزمائشوں کا سامنا کرنا
۱۲. بعض مسیحی، خاندانی زندگی سے تعلق رکھنے والی کس آزمائش کا سامنا کرتے ہیں؟
۱۲ بعض مسیحی، خاندانی زندگی سے تعلق رکھنے والی آزمائشوں کا سامنا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر شوہر یا بیوی میں سے کوئی ایک زناکاری کرتا ہے تو خاندان کے باقی افراد پر تباہکُن اثرات پڑ سکتے ہیں! اس صدمے اور دُکھ کی وجہ سے معصوم ساتھی کے لئے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا اور سونا مشکل ہو سکتا ہے۔ پریشانی کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی غلطیاں ہو سکتیں یا حادثات ہو سکتے ہیں۔ بےقصور ساتھی کی بھوک مٹ سکتی اور وزن کم ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ جذباتی طور پر پریشانی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اُس کے لئے مسیحی کارگزاریوں میں حصہ لینا بھی مشکل ہو سکتا ہے۔ نیز بچے تو اس سے اَور بھی زیادہ متاثر ہوتے ہیں!
۱۳، ۱۴. (ا) ہیکل کے افتتاح پر سلیمان کی دُعا سے آپ کو کیا حوصلہافزائی حاصل ہوتی ہے؟ (ب) ہم رُوحاُلقدس کے لئے دُعا کیوں کرتے ہیں؟
۱۳ جب ہمیں ایسی آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے تو یہوواہ خدا ہمیں ضروری مدد فراہم کرتا ہے۔ (زبور ۹۴:۱۹) ہیکل کے افتتاح پر سلیمان کی دُعا سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے لوگوں کی دُعائیں سنتا ہے۔ سلیمان نے خدا سے دُعا کی: ”جو دُعا اور مناجات کسی ایک شخص یا تیری قوم اؔسرائیل کی طرف سے ہو جن میں سے ہر شخص اپنے دل کا دُکھ جانکر اپنے ہاتھ پھیلائے۔ تو تُو آسمان پر سے جو تیری سکونتگاہ ہے سُن کر معاف کر دینا اور ایسا کرنا کہ آدمی کو جس کے دل کو تُو جانتا ہے اُسی کی ساری روِش کے مطابق بدلہ دینا کیونکہ فقط تُو ہی سب بنیآدم کے دلوں کو جانتا ہے۔ تاکہ جتنی مدت تک وہ اس مُلک میں جِسے تُو نے ہمارے باپدادا کو دیا جیتے رہیں تیرا خوف مانیں۔“—۱-سلاطین ۸:۳۸-۴۰۔
۱۴ رُوحاُلقدس کے لئے دُعا کرنا خاص طور پر مددگار ہو سکتا ہے۔ (متی ) رُوح کے پھلوں میں خوشی اور اطمینان جیسی خوبیاں بھی شامل ہیں۔ ( ۷:۷-۱۱گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) جب ہمارا آسمانی باپ ہماری دُعاؤں کے جواب میں ہمارے غم کو خوشی میں اور ہماری تکلیف کو اطمینان میں بدل دیتا ہے تو ہم کسقدر پُرسکون محسوس کرتے ہیں!
۱۵. کونسے صحائف ہماری پریشانی کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں؟
۱۵ جب ہمیں شدید دباؤ کا سامنا ہوتا ہے تو ہم کسی حد تک پریشان ہو سکتے ہیں۔ مگر یسوع مسیح کے ان الفاظ کو ذہن میں رکھنے سے ہم اپنی بعض فکروں کو کم کر سکتے ہیں۔ اُس نے بیان کِیا: ”اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے؟ . . . بلکہ تُم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تُم کو مل جائیں گی۔“ (متی ۶:۲۵، ۳۳، ۳۴) پطرس رسول نے ہمیں تاکید کی: ’اپنی ساری فکر خدا پر ڈال دو کیونکہ اُس کو ہماری فکر ہے۔‘ (۱-پطرس ۵:۶، ۷) مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوشش کرنا اچھی بات ہے۔ تاہم، اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد ہمیں پریشان ہونے کی بجائے دُعا کرنی چاہئے۔ زبورنویس نے گیت گایا: ”اپنی راہ [یہوواہ] پر چھوڑ دے اور اُس پر توکل کر۔ وہی سب کچھ کرے گا۔“—زبور ۳۷:۵۔
۱۶، ۱۷. (ا) ہم پریشانی سے مکمل طور پر آزاد کیوں نہیں ہو سکتے؟ (ب) اگر ہم فلپیوں ۴:۶، ۷ پر عمل کریں گے تو ہمیں کس بات کا تجربہ ہوگا؟
۱۶ پولس رسول نے لکھا: ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور مِنت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھے گا۔“ (فلپیوں ۴:۶، ۷) فطرتی بات ہے کہ آدم کی ناکامل اولاد مکمل طور پر پریشانیوں سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ (رومیوں ۵:۱۲) عیسو کی بیویاں اُس کے خداپرست والدین اضحاق اور ربقہ کے لئے ”وبالِجان“ تھیں۔ (پیدایش ۲۶:۳۴، ۳۵) تیمتھیس اور ترفمس کی طرح ہمارے لئے بھی بیماری دُکھوتکلیف کا باعث ہو سکتی ہے۔ (۱-تیمتھیس ۵:۲۳؛ ۲-تیمتھیس ۴:۲۰) پولس رسول کو اپنے ہمایمانوں کی فکر تھی۔ (۲-کرنتھیوں ۱۱:۲۸) لیکن ’دُعا کا سننے‘ والا ہر وقت اپنے محبت رکھنے والوں کے ساتھ ہے۔—زبور ۶۵:۲۔
۱۷ جب ہم یہوواہ کے دن کے منتظر ہیں تو ہمیں ’اطمینان کے خدا‘ کی طرف سے تسلی اور مدد حاصل ہے۔ (فلپیوں ۴:۹) یہوواہ خدا ”رحیم اور مہربان ہے“ وہ ”نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے“ اور ”اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔“ (خروج ۳۴:۶؛ زبور ۸۶:۵؛ ۱۰۳:۱۳، ۱۴) پس، آئیں اپنی ’درخواستیں اُس کے سامنے پیش‘ کرتے ہوئے ’خدا کے اطمینان‘ کو حاصل کریں جو انسانی سمجھ سے بالکل باہر ہے۔
۱۸. ایوب ۴۲:۵ کے مطابق خدا کو ’دیکھنا‘ کیسے ممکن ہے؟
۱۸ جب ہمیں اپنی دُعاؤں کا جواب ملتا ہے تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ اپنی آزمائشوں کو برداشت کرنے کے بعد ایوب نے یہوواہ خدا سے کہا: ”مَیں نے تیری خبر کان سے سنی تھی پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے۔“ (ایوب ۴۲:۵) ہم ایمان کی آنکھوں سے اُس برتاؤ پر غور کر سکتے ہیں جو خدا ہمارے ساتھ کرتا ہے۔ اس طرح ہماری سمجھ اور شکرگزاری بڑھتی ہے اور ہم خدا کو اس طرح ’دیکھ‘ سکتے ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسی قربت سے ہمیں دلی اور ذہنی سکون حاصل ہوگا۔
۱۹. اگر ہم ’اپنی ساری فکر یہوواہ پر ڈال دیتے‘ ہیں تو کیا واقع ہوگا؟
۱۹ اگر ہم ’اپنی ساری فکر یہوواہ پر ڈال دیتے‘ ہیں تو ہم اُس کی طرف سے حاصل ہونے والے اطمینان کے ذریعے آزمائشوں کو برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ اطمینان ہمارے دل اور خیالات کو محفوظ رکھے گا۔ ہمارا علامتی دل پریشانی، خوف اور درد سے آزاد ہوگا۔ ہمارا ذہن مایوسی یا فکرمندی سے بےچین یا پریشان نہیں ہوگا۔
۲۰، ۲۱. (ا) ستفنس کا واقعہ اذیت میں اطمینان حاصل کرنے کی بابت کیا ظاہر کرتا ہے؟ (ب) آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت مطمئن رہنے کی جدید مثالیں بیان کریں۔
اعمال ۶:۱۵) اُس کا چہرہ ایک فرشتہ یا خدا کے ایک پیامبر کی طرح پُرسکون تھا۔ جب ستفنس نے اُن کو یسوع کی موت کے لئے قصوروار ٹھہرایا تو وہ ”جی میں جل گئے اور اُس پر دانت پیسنے لگے۔“ ستفنس نے ”رُوحاُلقدس سے معمور ہوکر آسمان کی طرف غور سے نظر کی اور خدا کا جلال اور یسوؔع کو خدا کی دہنی طرف کھڑا“ دیکھا۔ اس رویا سے دلیری حاصل کرنے سے ستفنس موت تک وفادار رہا۔ (اعمال ۷:۵۲-۶۰) اگرچہ آجکل ہمیں رویتیں نظر نہیں آتیں توبھی اذیت کے وقت ہم خداداد اطمینان حاصل کر سکتے ہیں۔
۲۰ جب شاگرد ستفنس کو اپنے ایمان کی ایک سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا تو وہ پُرسکون رہا۔ اس سے پہلے کہ اُس نے اپنے آخری الفاظ کہے عدالت میں بیٹھے تمام لوگوں نے دیکھا کہ ”اُس کا چہرہ فرشتہ کا سا“ ہو گیا ہے۔ (۲۱ آئیں دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں مرنے والے چند مسیحیوں کے جذباتواحساسات پر غور کریں۔ ان میں سے ایک نے اپنے عدالتی مقدمے کی بابت کہا: ”مجھے سزائےموت کا حکم سنایا گیا۔ مَیں نے جواب میں یسوع مسیح کے چند الفاظ دُہرائے، جیسےکہ ’تم موت تک وفادار رہو۔‘ لیکن مَیں پریشان نہیں ہوں۔ جو اطمینان اور سکون مجھے اس وقت حاصل ہے آپ اُس کا تصور نہیں کر سکتے!“ ایک نوجوان مسیحی نے مرنے سے پہلے اپنے والدین کو خط لکھا: ”آدھی رات گزر چکی ہے۔ میرے پاس اب بھی وقت ہے کہ مَیں اپنا فیصلہ بدل لوں۔ لیکن کیا مَیں اپنے خداوند کا انکار کرنے کے بعد اس دُنیا میں خوش رہ سکوں گا؟ ہرگز نہیں! لیکن اب آپ کو اس بات کی یقیندہانی ہے کہ مَیں خوش ہوں اور اس دُنیا کو اطمینان سے چھوڑ رہا ہوں۔“ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہوواہ خدا اپنے وفادار خادموں کو سنبھالتا ہے۔
برداشت کرنا ممکن ہے!
۲۲، ۲۳. صبر کے ساتھ یہوواہ کے دن کے منتظر رہتے ہوئے ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟
۲۲ شاید آپ کو ایسی کسی صورتحال کا سامنا نہ ہو جن پر ہم نے اُوپر غور کِیا ہے۔ تاہم، خدائی خوف رکھنے والے نبی ایوب نے بالکل دُرست کہا: ”انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے۔ تھوڑے دنوں کا ہے اور دُکھ سے بھرا ہے۔“ (ایوب ۱۴:۱) شاید آپ والدین ہیں اور اپنے بچوں کو روحانی تعلیموتربیت دینے کے لئے سخت کوشش کر رہے ہیں۔ جب آپ کے بچے سکول میں آزمائشوں کا سامنا کرنے کے باوجود یہوواہ کے راست معیاروں پر قائم رہتے ہیں تو آپ کو خوشی حاصل ہوتی ہے! ہو سکتا ہے کہ آپ کو کام کی جگہ پر سخت مشکل اور آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی اور اسی طرح کی دیگر حالتوں میں برداشت کرنا ممکن ہے کیونکہ ’یہوواہ ہر روز ہمارا بوجھ اُٹھاتا ہے۔‘—زبور ۶۸:۱۹۔
۲۳ شاید آپ خود کو ایک معمولی شخص خیال کریں لیکن اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ یہوواہ خدا آپ کی اُس محبت اور محنت کو کبھی نہیں بھولے گا جو آپ اُس کے نام کے واسطے ظاہر کرتے ہیں۔ (عبرانیوں ۶:۱۰) اُس کی مدد سے آپ ایمان کی آزمائشوں میں قائم رہ سکتے ہیں۔ پس، خدا کی مرضی پوری کرنے کے لئے دُعا کریں اور اسے اپنے مقاصد کا حصہ بنائیں۔ اس طرح آپ خدا کی برکت کا یقین رکھ سکتے اور اُس کی مدد سے صبر کے ساتھ یہوواہ کے دن کے منتظر رہ سکتے ہیں۔
آپ کیسے جواب دیں گے؟
• مسیحیوں کو صبر یا برداشت کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟
• کونسی چیز بیماری اور کسی عزیز کی موت کے غم کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟
• آزمائشوں کو برداشت کرنے میں دُعا کیسے مدد کرتی ہے؟
• صبر کے ساتھ یہوواہ کے دن کا منتظر رہنا کیوں ممکن ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
یہوواہ خدا پر بھروسا رکھنے سے ہم اپنے کسی عزیز کی موت کے غم کو برداشت کر سکتے ہیں
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
دلی دُعا ایمان کی آزمائشوں میں قائم رہنے کے لئے ہماری مدد کر سکتی ہے