ایک ہو کر اِس دُنیا کے خاتمے کا سامنا کریں
”ہم آپس میں ایک دوسرے کے عضو ہیں۔“—افس 4:25۔
1، 2. خدا اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے، چاہے وہ جوان ہوں یا بوڑھے؟
کیا آپ نوجوان ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ آپ یہوواہ خدا کی عالمگیر کلیسیا کا ایک بہت اہم حصہ ہیں۔ بہت سے ملکوں میں جو لوگ بپتسمہ لیتے ہیں، اُن میں ایک بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ اِتنے زیادہ نوجوان یہوواہ خدا کی خدمت کرنے والوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
2 ایک نوجوان کے طور پر کیا آپ کو اپنے ہمعمروں کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے؟ یقیناً آپ کو ایسا کرنا اچھا لگتا ہوگا۔ اپنے ہمعمروں کے ساتھ وقت گزرانے سے واقعی بڑی خوشی ملتی ہے۔ لیکن غور کریں کہ چاہے ہم جوان ہوں یا بوڑھے یا ہم کسی بھی پسمنظر سے تعلق رکھتے ہوں، یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم متحد ہو کر اُس کی عبادت کریں۔ پولُس رسول نے بتایا کہ خدا چاہتا ہے کہ ”سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔“ (1-تیم 2:3، 4) مکاشفہ 7:9 میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا کی عبادت کرنے والے لوگ ”ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِزبان“ سے تعلق رکھتے ہیں۔
3، 4. (الف) آجکل بہت سے نوجوانوں میں کون سا رُجحان عام ہے؟ (ب) یہوواہ خدا کی عبادت کرنے والے نوجوان افسیوں 4:25 میں لکھی بات کو کس طرح سچ ثابت کرتے ہیں؟
3 یہوواہ خدا کی خدمت کرنے والے نوجوانوں اور اِس دُنیا کے نوجوانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بہت سے نوجوان جو یہوواہ خدا کی خدمت نہیں کرتے، وہ صرف اپنے ہی بارے میں سوچتے
ہیں۔ اُن کی نظر میں یہ بات اہم ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ بعض ماہرین نے ایسے نوجوانوں کو ”خودغرض نسل“ کا نام دیا ہے۔ جس انداز سے یہ نوجوان بات کرتے ہیں اور جس طرح کے کپڑے پہنتے ہیں، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بڑے بوڑھوں کو کچھ نہیں سمجھتے۔ اُن کی نظر میں بوڑھے لوگ ”آج کے دَور سے بہت پیچھے ہیں۔“4 اِس طرح کا رُجحان ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ اِس لیے یہوواہ خدا کی خدمت کرنے والے نوجوانوں کو اِس سے بچنے اور یہوواہ خدا کا نظریہ اپنانے کے لیے سخت کوشش کرنی پڑتی ہے۔ پہلی صدی عیسوی میں بھی ایسا تھا۔ اِس لیے پولُس نے مسیحیوں کو تاکید کی کہ وہ ”اُس روح کی پیروی“ نہ کریں ”جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے“ اور جس کی پیروی وہ پہلے کِیا کرتے تھے۔ (افسیوں 2:1-3 کو پڑھیں۔) ایسے نوجوان واقعی قابلِتعریف ہیں جو دُنیا کے نوجوانوں کی سوچ نہیں اپناتے بلکہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر یہوواہ خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ اِن نوجوانوں کے رُجحان سے پولُس کے یہ الفاظ سچ ثابت ہوتے ہیں کہ ”ہم آپس میں ایک دوسرے کے عضو ہیں۔“ (افس 4:25) جوںجوں ہم اِس دُنیا کے خاتمے کے نزدیک پہنچ رہے ہیں، ہمارے لیے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ متحد رہنا پہلے سے کہیں اہم ہو گیا ہے۔ آئیں، بائبل میں درج کچھ مثالوں پر غور کرتے ہیں جن سے ہم سمجھ جائیں گے کہ ایک دوسرے کے ساتھ متحد رہنا کتنا ضروری ہے۔
وہ آپس میں متحد رہے
5، 6. لُوط اور اُن کی بیٹیوں کو ساتھ ساتھ رہنے سے کیا فائدہ ہوا اور اِس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
5 ماضی میں یہوواہ خدا نے اپنے بندوں کی اُس وقت خوشی سے مدد کی جب اُنہوں نے مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ چاہے یہوواہ خدا کے بندے جوان ہوں یا بوڑھے، وہ سب بائبل میں درج مثالوں سے بہت اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ آئیں، دیکھتے ہیں کہ لُوط کے ساتھ کیا ہوا۔
6 لُوط اور اُن کے گھرانے کو ایک بہت خطرناک صورتحال کا سامنا تھا۔ وہ شہر سدوم میں رہتے تھے جسے خدا تباہ کرنے والا تھا۔ خدا کے فرشتوں نے لُوط کو تاکید کی کہ وہ شہر چھوڑ کر پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔ اُنہوں نے لُوط سے کہا: ”اپنی جان بچانے کو بھاگ۔“ (پید 19:12-22) لُوط نے اُن کی بات مانی اور اُن کی بیٹیاں بھی اُن کے ساتھ ساتھ رہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ لُوط کے دوسرے عزیزوں نے ایسا نہیں کِیا۔ جن نوجوان آدمیوں کے ساتھ لُوط کی بیٹیوں کی منگنی ہوئی تھی، اُنہوں نے سوچا کہ لُوط بڈھے ہو گئے ہیں اِس لیے وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے کہ اُنہیں لُوط ”مضحک سا معلوم ہوا۔“ لیکن لُوط کی بات نہ ماننے کی وجہ سے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ (پید 19:14) صرف لُوط اور اُن کی بیٹیاں بچیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہے۔
7. یہوواہ خدا نے اُن سب کی مدد کیسے کی جنہوں نے مصر سے نکلتے وقت اِتحاد کا مظاہرہ کِیا؟
7 ایک اَور مثال پر بھی غور کریں۔ جب بنیاِسرائیل مصر سے نکلے تو اُنہوں نے یہ سوچ کر چھوٹے چھوٹے گروہ نہیں بنا لیے کہ ہر گروہ اپنے اپنے راستے ملک کنعان پہنچے گا۔ اور جب موسیٰ نے ”اپنا ہاتھ سمندر کے اُوپر بڑھایا“ اور یہوواہ خدا نے سمندر کو دو حصے کر دیا تو موسیٰ اکیلے یا صرف کچھ اِسرائیلیوں کو لے کر پار نہیں گئے۔ اِس کی بجائے سب اِسرائیلیوں نے یہوواہ خدا کے زیرِسایہ اِکٹھے سمندر پار کِیا۔ (خر 14:21، 22، 29، 30) غیراِسرائیلیوں کی ایک ”ملی جلی گروہ“ بھی اُن کے ساتھ ساتھ رہی۔ یوں اِن سب لوگوں نے اِتحاد کا مظاہرہ کِیا۔ (خر 12:38) یقیناً نوجوانوں کے ایک گروہ نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ وہ اپنی مرضی کا راستہ چن کر آگے بڑھیں گے۔ ایسا کرنا سراسر بےوقوفی ہوتی کیونکہ اِس وجہ سے اُن پر یہوواہ خدا کا سایہ نہ رہتا۔—1-کر 10:1۔
8. بادشاہ یہوسفط کے زمانے میں خدا کے بندوں نے آپس میں اِتحاد کیسے ظاہر کِیا؟
8 بادشاہ یہوسفط کے زمانے میں خدا کے بندوں کو طاقتور دُشمنوں کے ’ایک بڑے انبوہ‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ (2-توا 20:1، 2) لیکن اُنہوں نے اپنے بلبوتے پر اُن کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے یہوواہ خدا سے مدد مانگی۔ (2-تواریخ 20:3، 4 کو پڑھیں۔) لیکن اُنہوں نے فرداً فرداً ایسا نہیں کِیا۔ بائبل میں لکھا ہے: ”سارا یہوؔداہ اپنے بچوں اور بیویوں اور لڑکوں سمیت [یہوواہ] کے حضور کھڑا رہا۔“ (2-توا 20:13) بوڑھوں اور جوانوں، سب نے ایمان میں متحد ہو کر یہوواہ خدا سے رہنمائی مانگی اور یہوواہ خدا نے اُن کو دُشمنوں سے بچا لیا۔ (2-توا 20:20-27) خدا کے بندوں کے طور پر مل کر مشکلات کا سامنا کرنے کے سلسلے میں یہ کتنی اچھی مثال ہے۔
9. ہم پہلی صدی کے مسیحیوں کے اِتحاد سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
9 پہلی صدی کے مسیحی بھی آپس میں متحد تھے۔ مثال کے طور پر جب بہت سے یہودی اور یہودی مذہب اپنانے والے لوگ مسیحی بن گئے تو وہ ”رسولوں سے تعلیم پانے اور رفاقت رکھنے میں اور روٹی توڑنے اور دُعا کرنے میں مشغول رہے۔“ (اعما 2:42) اُن کے اِتحاد کی مضبوطی خاص طور پر اُس وقت ظاہر ہوئی جب اذیت کی گھڑی میں اُنہوں نے ایک دوسرے کی مدد کی۔ (اعما 4:23، 24) واقعی مصیبت کے وقت آپس میں متحد رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
یہوواہ کے دن کے آنے سے پہلے متحد ہوں
10. خدا کے بندوں کو خاص طور پر کب متحد رہنا ہوگا؟
10 بہت جلد اِنسانی تاریخ کا سب سے تاریک دَور شروع ہونے والا ہے۔ یوایل نبی نے اِس کے بارے میں کہا کہ یہ ”اندھیرے اور تاریکی کا روز“ ہوگا۔ (یوایل 2:1، 2؛ صفن 1:14) اُس وقت یہ بہت ضروری ہوگا کہ خدا کے بندے پہلے سے بھی زیادہ متحد رہیں۔ یسوع مسیح کی یہ بات یاد رکھیں کہ ”جس بادشاہی میں پھوٹ پڑتی ہے وہ ویران ہو جاتی ہے۔“—متی 12:25۔
11. خدا کے بندے متحد رہنے کے سلسلے میں زبور 122:3، 4 سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
11 جب اِس دُنیا کا تاریک دَور شروع ہوگا تو اُس وقت ہمیں جس روحانی اِتحاد کی ضرورت پڑے گی، اُس کا موازنہ زبور نویس نے اُن گھروں سے کِیا جو قدیم یروشلیم میں بنائے گئے تھے۔ یہ گھر ایک دوسرے کے اِتنے قریب تھے کہ زبور نویس نے یروشلیم کے بارے میں کہا کہ ”اُس کے تمام حصے مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔“ اِس طرح اِن گھروں میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کی مدد اور حفاظت کرنے کے قابل ہوتے تھے۔ اِن گھروں کو دیکھ کر زبور نویس کے ذہن میں شاید بنیاِسرائیل کے قبیلے بھی آئے ہوں جو ایک قوم کے طور پر مل کر یہوواہ خدا کی عبادت کرتے تھے۔ (زبور 122:3، 4 کو فٹنوٹ سے پڑھیں۔ *) ہمیں بھی ابھی اور آنے والی مشکل گھڑی میں ”مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے“ رہنا ہوگا۔
12. جب خدا کے بندوں پر حملہ کِیا جائے گا تو وہ کس وجہ سے بچ جائیں گے؟
12 مستقبل میں ہمارے لیے ”ایک دوسرے کے ساتھ جڑے“ رہنا اِتنا ضروری کیوں ہوگا؟ حزقیایل 38 باب میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ ”جوؔج . . . جو ماجوؔج کی سرزمین کا ہے،“ خدا کے بندوں پر حملہ کرے گا۔ اُس وقت ہمیں کسی بھی چیز کو اِس بات کا اِجازت نہیں دینی ہوگی کہ وہ ہم میں اِختلاف ڈالے۔ یقیناً اُس وقت ہم اِس دُنیا سے مدد حاصل نہیں کرنا چاہیں گے بلکہ ہمیں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ جڑے رہنا ہوگا۔ بِلاشُبہ اُس مشکل گھڑی میں ہم اِس لیے نہیں بچیں گے کہ ہم یہوواہ کے لوگوں کے گروہ کا حصہ ہیں۔ دراصل یہوواہ خدا اور یسوع مسیح اُن لوگوں کی حفاظت کریں گے جو ذاتی طور پر یہوواہ خدا پر بھروسا رکھیں گے اور اُس کے فرمانبردار رہیں گے۔ (یوایل 2:32؛ متی 28:20) ذرا سوچیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو لوگ خدا کے گلّے کے ساتھ متحد نہیں رہتے اور اپنی الگ راہ چن لیتے ہیں، وہ اُس مشکل گھڑی میں بچ جائیں؟—میک 2:12۔
13. ابھی تک ہم نے جن باتوں پر غور کِیا ہے، اُن سے نوجوان کیا سیکھ سکتے ہیں؟
13 لہٰذا ایسے نوجوانوں کی طرح نہ بنیں جو صرف اپنے ہمعمروں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں یا خود کو دوسروں سے الگ تھلگ رکھتے ہیں۔ ہم سب ایک ایسے وقت کی طرف بڑھ رہے ہیں جب ہمیں اپنے بہن بھائیوں کی اشد ضرورت ہوگی، پھر چاہے ہم جوان ہوں یا بوڑھے۔ لہٰذا ابھی وقت ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں
کے ساتھ دوستی مضبوط کریں اور اُن کے ساتھ مل کر خدا کی خدمت کریں۔ خدا کے بندوں کے ساتھ متحد ہونے کی وجہ سے مستقبل میں ہماری جان بچ سکتی ہے۔”ہم آپس میں ایک دوسرے کے عضو ہیں“
14، 15. (الف) یہوواہ خدا کس مقصد کے تحت نوجوانوں اور بوڑھوں کی تربیت کر رہا ہے؟ (ب) یہوواہ خدا نے متحد رہنے کے سلسلے میں ہمیں کیا نصیحت کی ہے؟
14 یہوواہ خدا ہماری مدد کر رہا ہے تاکہ ہم ”ایک دل ہو کر اُس کی عبادت“ کریں۔ (صفن 3:8، 9) وہ ہماری تربیت کر رہا ہے تاکہ ہم اُس کے مقصد پر پورا اُتر سکیں۔ اِس مقصد میں کیا شامل ہے؟ اِس میں یہ شامل ہے کہ ”مسیح میں سب چیزوں کا مجموعہ“ ہو۔ (افسیوں 1:9، 10 کو پڑھیں۔) خدا چاہتا ہے کہ فرشتے اور اِنسان ایک خاندان بن کر اُس کی عبادت کریں۔ اور اُس کا یہ مقصد ضرور پورا ہوگا۔ ایک نوجوان کے طور پر کیا آپ اِس بات کی اہمیت سمجھ رہے ہیں کہ خدا کی تنظیم کے ساتھ متحد ہونا کتنا ضروری ہے؟
15 یہوواہ خدا ابھی سے ہمیں متحد ہونا سکھا رہا ہے تاکہ ہم نئی دُنیا میں بھی متحد رہیں۔ بائبل میں ہمیں باربار نصیحت کی گئی ہے کہ ’ایک دوسرے کی برابر فکر رکھو،‘ ”آپس میں ایک دوسرے کو پیار کرو،“ ”ایک دوسرے کو تسلی دیا کرو“ اور ”ایک دوسرے کی ترقی کا باعث بنو۔“ (1-کر 12:25؛ روم 12:10؛ 1-تھس 4:18؛ 5:11) یہوواہ خدا جانتا ہے کہ ہم عیبدار ہیں اور اِس وجہ سے ہمارے لیے اِتحاد کو برقرار رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اِس لیے اُس نے ہمیں ہدایت دی ہے کہ ”ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔“—افس 4:32۔
16، 17. (الف) ہمارے اِجلاسوں کا ایک مقصد کیا ہے؟ (ب) نوجوان یسوع مسیح کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
16 یہوواہ خدا ہمیں اِجلاسوں کے ذریعے بھی متحد رہنا سکھا رہا ہے۔ ہم نے اکثر عبرانیوں 10:24، 25 میں درج نصیحت کو پڑھا ہے۔ ہمارے اِجلاسوں کا ایک مقصد یہ ہے کہ ہم ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔“ ہمارے اِجلاس بہت اہم ہیں کیونکہ اِن سے ہمیں موقع ملتا ہے کہ ہم ’ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اُس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اُسی قدر زیادہ کِیا کریں۔‘
17 یسوع مسیح نے نوجوانی میں خدا کے بندوں کے ساتھ مل کر اُس کی عبادت کرنے کے حوالے سے شاندار مثال قائم کی۔ جب وہ 12 سال کے تھے تو وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ہیکل میں ایک بڑے اِجتماع پر گئے۔ واپسی پر یسوع کے ماں باپ نے دیکھا کہ یسوع اُن کے ساتھ نہیں ہیں۔ کیا یسوع اپنے ہمعمروں کے ساتھ کہیں وقت گزار رہے تھے؟ نہیں۔ جب یوسف اور مریم، یسوع کو تلاش کر رہے تھے تو اُنہوں نے دیکھا کہ یسوع ہیکل میں مذہبی رہنماؤں کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔—لو 2:45-47۔
18. ہماری دُعاؤں سے اِتحاد کو کیسے فروغ مل سکتا ہے؟
18 اپنے اِتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت پیدا کرنے اور اِجلاسوں پر جانے کے علاوہ ہمیں ایک دوسرے کے لیے دُعا بھی کرنی چاہیے۔ جب ہم اپنے بہن بھائیوں کے کسی خاص مسئلے کے بارے میں دُعا کرتے ہیں تو ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کی فکر ہے۔ یہ ایک ایسا کام نہیں ہے جو صرف بڑے کر سکتے ہیں یا صرف اُنہیں ہی کرنا چاہیے۔ اگر آپ نوجوان ہیں تو کیا آپ ایسے موقعوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں جن سے آپ اپنے روحانی خاندان کے ساتھ بندھن کو مضبوط کر سکتے ہیں؟ ایسا کرنے سے آپ اِس دُنیا کے ساتھ رشتہ نہیں جوڑیں گے جو جلد اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔
”آپس میں ایک دوسرے کے اعضا“ ہونے کا ثبوت
19-21. (الف) ہم کس طریقے سے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ”آپس میں ایک دوسرے کے اعضا“ ہیں؟ مثالیں دیں۔ (ب) ہم اُن بہن بھائیوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں جنہوں نے قدرتی آفت سے متاثر بہن بھائیوں کی مدد کی؟
19 یہوواہ خدا کے بندے اپنے کاموں سے ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ رومیوں 12:5 کے مطابق واقعی ”آپس میں ایک دوسرے کے اعضا“ ہیں۔ اِس کا ایک ثبوت اُس وقت ملتا ہے جب کوئی قدرتی آفت آتی ہے۔ مثال کے طور پر دسمبر 2011ء میں فلپائن کے جزیرے مینداناؤ میں سمندری طوفان کی وجہ سے بہت بڑا سیلاب آیا۔ راتوں رات 40 ہزار سے زیادہ گھر تباہ ہو گئے جن میں ہمارے بہت سے بہن بھائیوں کے گھر بھی شامل تھے۔ برانچ کے دفتر نے بتایا کہ ”اِس سے پہلے کہ مقامی اِمدادی کمیٹیاں اپنا کام شروع کرتیں، دوسرے علاقوں کے بہن بھائیوں نے اِمداد بھیجنا شروع کر دی۔“
20 اِسی طرح جب شمالی جاپان میں شدید زلزلے کے بعد سونامی آیا تو ہمارے بہت سے بہن بھائیوں کو جانی اور مالی نقصان ہوا۔ بعض بہن بھائیوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا۔ اِن میں سے ایک بہن یوشیکو تھیں جن کا گھر تباہ ہو گیا۔ وہ کنگڈم ہال سے 40 کلو میٹر (تقریباً 25 میل) دُور رہتی تھیں۔ اُنہوں نے کہا: ”ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ زلزلے کے اگلے ہی دن حلقے کے نگہبان اور ایک اَور بھائی ہماری خیریت جاننے آئے۔“ یوشیکو نے مسکراتے ہوئے کہا: ”ہم اِس بات کی بہت قدر کرتے ہیں کہ کلیسیاؤں کے ذریعے ہماری روحانی ضروریات کا خیال رکھا گیا۔ اِس کے علاوہ ہمیں کوٹ، پاجامے، جُوتے اور بیگ بھی فراہم کیے گئے۔“ اِمدادی کمیٹی کے ایک رُکن نے کہا: ”پورے جاپان کے بہن بھائی ایک ہو کر ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔ کچھ بھائی تو امریکہ سے یہاں بہن بھائیوں کی مدد کرنے آئے۔ جب ہم نے اُن سے پوچھا کہ وہ اِتنی دُور سے کیوں آئے ہیں تو اُنہوں نے کہا کہ ”جاپان میں رہنے والے بہن بھائی اور ہم ایک ہیں۔ اور اِس وقت اُنہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے۔““ کیا آپ کو ایسی تنظیم کا حصہ ہونے پر فخر نہیں جو اپنے ارکان کا اِتنا خیال رکھتی ہے؟ یقیناً یہوواہ خدا ہمارے اِتحاد کے جذبے کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔
21 اگر ہم ابھی ایک دوسرے کا سہارا بننا سیکھیں گے تو ہم آنے والی مصیبتوں کا بھی ایک ہو کر سامنا کریں گے۔ اُس وقت اگر دوسرے ملکوں کے بہن بھائیوں کے ساتھ ہمارا رابطہ ٹوٹ بھی جائے تو بھی ہم اپنے مقامی بہن بھائیوں کے ساتھ متحد رہیں گے۔ جاپان میں سمندری طوفان سے متاثر ہونے والی بہن فومیکو کہتی ہیں: ”خاتمہ بہت نزدیک ہے۔ ہمیں اُس وقت تک اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرتے رہنا چاہیے جب تک مصیبتیں ختم نہیں ہو جاتیں۔“
22. ہمارے اِتحاد سے ہمیں آگے چل کر کیا فائدہ ہوگا؟
22 ایسے نوجوان اور بوڑھے جو ابھی متحد رہنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ دراصل اِس غیرمتحد دُنیا کے خاتمے سے بچنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جب یہوواہ خدا شیطان کی دُنیا کو ختم کرے گا تو وہ اپنے لوگوں کو بچا لے گا جس طرح اُس نے ماضی میں کِیا تھا۔ (یسع 52:9، 10) لہٰذا ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر آپ خدا کے بندوں کے ساتھ متحد رہیں گے تو آپ اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جنہیں خدا بچا لے گا۔ ایک اَور بات جس کی وجہ سے ہم بچ سکیں گے، وہ یہ ہے کہ ہم اُن چیزیں کے لیے قدر بڑھائیں جو ہمیں ملی ہیں۔ اِس کے بارے میں ہم اگلے مضمون میں بات کریں گے۔
^ پیراگراف 11 زبور 122:3، 4 (اُردو جیو ورشن): ”یروشلم شہر یوں بنایا گیا ہے کہ اُس کے تمام حصے مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ وہاں قبیلے، ہاں رب کے قبیلے حاضر ہوتے ہیں تاکہ رب کے نام کی ستائش کریں جس طرح اسرائیل کو فرمایا گیا ہے۔“