توبہ نہ کرنے والوں کو کلیسیا سے خارج کرنا—ایک پُرمحبت بندوبست
خولیان نامی ایک بھائی بتاتے ہیں: ”جب یہ اِعلان کِیا گیا کہ میرے بیٹے کو کلیسیا سے خارج کر دیا گیا ہے تو مجھے لگا کہ جیسے میری دُنیا اُجڑ گئی ہے۔ وہ میرا سب سے بڑا بیٹا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے بہت قریب تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ بہت وقت گزارتے تھے۔ وہ ہمیشہ ایک اچھا بیٹا تھا لیکن اچانک وہ غلط کام کرنے لگا۔ میری بیوی بہت روتی تھی اور مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ مَیں اُسے تسلی کیسے دوں۔ یہ سوال باربار ہمارے ذہن میں آتا تھا کہ اُس کی پرورش کرنے میں ہم سے کہاں غلطی ہوئی؟“
سچ ہے کہ جب کسی کو کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے تو دوسروں کو بہت دُکھ ہوتا ہے۔ تو پھر ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ بندوبست یہوواہ خدا کی محبت کا اِظہار ہے؟ خدا کے کلام میں ایسا دردناک قدم اُٹھانے کی ہدایت کیوں دی گئی ہے؟ ایک شخص کو کس صورت میں کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے؟
کس صورت میں ایک شخص کو خارج کر دیا جاتا ہے؟
ایک بپتسمہیافتہ یہوواہ کے گواہ کو اُسی صورت میں کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے اگر وہ کوئی سنگین گُناہ کرتا ہے اور اِس سے توبہ نہیں کرتا۔
حالانکہ یہوواہ خدا ہم سے یہ توقع نہیں کرتا کہ ہم کبھی غلطی نہ کریں لیکن وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کے معیاروں کے مطابق اپنا چالچلن پاک رکھیں۔ مثال کے طور پر اُس نے ہمیں حرامکاری، بُتپرستی، چوری، ظلم، قتل اور جادوگری کرنے سے سخت منع کِیا ہے۔—1-کر 6:9، 10؛ مکا 21:8۔
آپ اِس بات سے ضرور متفق ہوں گے کہ یہوواہ کے پاک معیار سخت نہیں ہیں اور اِن پر عمل کرنے میں ہماری بھلائی ہے۔ آخر ہم سب اچھے اور صلحپسند لوگوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں جن پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے۔ اور مسیحی کلیسیا میں بالکل ایسا ہی ماحول پایا جاتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب نے بپتسمہ لینے سے پہلے خدا سے یہ وعدہ کِیا تھا کہ ہم اُس کے معیاروں کے مطابق چلتے رہیں گے۔
لیکن اگر ایک بپتسمہیافتہ مسیحی کوئی سنگین گُناہ کرتا ہے تو کیا یہوواہ خدا اُسے فوراً رد کر دیتا ہے؟ نہیں۔ ماضی میں خدا کے کچھ وفادار بندوں نے سنگین غلطیاں کیں لیکن خدا نے اُن کو معاف کر دیا۔ مثال کے طور پر داؤد بادشاہ نے زِناکاری کی اور ایک شخص کو قتل کروا دیا۔ لیکن ناتن نبی نے اُن سے کہا: ”[یہوواہ] نے ... تیرا گُناہ بخشا۔“—2-سمو 12:13۔
یہوواہ خدا نے داؤد کا گُناہ اِس لیے بخش دیا کیونکہ وہ دل سے تائب ہوئے۔ (زبور 32:1-5) آجکل بھی خدا کے ایک خادم کو صرف اُسی صورت میں کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے جب وہ اپنے گُناہ سے توبہ نہیں کرتا یا غلط کام کرنا نہیں چھوڑتا۔ (اعما 3:19؛ 26:20) اگر عدالتی کمیٹی میں خدمت کرنے والے بزرگوں پر یہ واضح نہیں ہے کہ اُس شخص نے دل سے توبہ کی ہے تو اُنہیں اِس شخص کو کلیسیا سے خارج کرنا چاہیے۔
شاید ہمیں لگے کہ یہ فیصلہ بڑی سختی یا بےرحمی سے کِیا گیا ہے، خاص طور
پر اگر ہم اُس شخص کے بہت قریب تھے جسے خارج کِیا گیا ہے۔ لیکن پاک کلام سے واضح ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا نے محبت کی بِنا پر یہ بندوبست کِیا ہے کہ گُناہگاروں کو کلیسیا سے خارج کر دیا جائے۔توبہ نہ کرنے والوں کو کلیسیا سے خارج کرنے کے اچھے نتائج
یسوع مسیح نے بتایا کہ ”دانشمندی اپنے کاموں کے نتائج سے نیک ثابت ہوتی ہے۔“ (متی 11:19، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن، فٹنوٹ) نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ توبہ نہ کرنے والے گُناہگاروں کو کلیسیا سے خارج کرنا واقعی دانشمندی کی بات ہے۔ ذرا اِن تین نتائج پر غور کریں:
یہوواہ کے نام کی بڑائی ہوتی ہے۔ ہم یہوواہ کے نام سے کہلاتے ہیں اِس لیے یہ بہت اہم ہے کہ ہم اُس کے معیاروں کے مطابق زندگی گزاریں۔ (یسع 43:10) جس طرح لوگ ایک نوجوان کے چالچلن کو دیکھ کر اُس کے والدین کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے ہیں اِسی طرح لوگ ہمارے اچھے کاموں کو دیکھ کر یہوواہ خدا کی بڑائی کرتے ہیں۔ اور ہمارے بُرے کاموں کی وجہ سے خدا کی بدنامی ہوتی ہے۔ حزقیایل نبی کے زمانے میں ایسا ہی ہوا۔ بنیاِسرائیل کے بُرے کاموں کی وجہ سے آسپاس کی قوموں میں یہوواہ کی بدنامی ہوئی۔—حز 36:19-23۔
جو شخص بدکاری کرتا ہے، وہ خدا کے پاک نام کو بدنام کرتا ہے۔ اِس لیے پطرس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی: ”فرمانبردار فرزند ہو کر اپنی جہالت کے زمانہ کی پُرانی خواہشوں کے تابع نہ بنو بلکہ جس طرح تمہارا بلانے والا پاک ہے اُسی طرح تُم بھی اپنے سارے چالچلن میں پاک بنو۔ کیونکہ لکھا ہے کہ پاک ہو اِس لئے کہ مَیں پاک ہوں۔“ (1-پطر 1:14-16) لہٰذا ہمارے پاک چالچلن سے خدا کے نام کی بڑائی ہوتی ہے۔
لیکن اگر یہوواہ کا ایک گواہ بُرے کام کرتا ہے تو عموماً اُس کے دوستوں اور جاننے والوں کو اِس کا پتہ چل جاتا ہے۔ جب ایسے شخص کو کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے تو سب لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا کے بندے ایک پاک قوم ہیں جو بائبل کی ہدایات پر عمل کرنے سے پاک رہتی ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں ایک آدمی نے کنگڈم ہال میں آ کر کہا کہ ”مَیں یہوواہ کا گواہ بننا چاہتا ہوں۔“ اُس کی بہن کو بدکاری کی وجہ سے کلیسیا سے خارج کر دیا گیا تھا۔ یہ آدمی ایک ایسی تنظیم میں شامل ہونا چاہتا تھا ”جس میں بدکاری کو نظرانداز نہیں کِیا جاتا۔“
کلیسیا کی حفاظت ہوتی ہے۔ پولسُ رسول نے کُرنتھس کے مسیحیوں کو خبردار کِیا کہ اگر وہ ایسے لوگوں کو کلیسیا میں رہنے دیں گے جو جان بُوجھ کر گُناہ کرتے ہیں تو یہ کلیسیا کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوگا۔ اُنہوں نے ایسے لوگوں کے بُرے اثر کو خمیر سے تشبیہ دی۔ اُنہوں نے لکھا: ”تھوڑا سا خمیر سارے گندھے ہوئے آٹے کو خمیر کر دیتا ہے۔“ پھر اُنہوں نے کرنتھیوں کو یہ ہدایت دی کہ ”اُس شریر آدمی کو اپنے درمیان سے نکال دو۔“—1-کر 5:6، 11-13۔
لگتا ہے کہ وہ ”شریر آدمی“ جس کا ذکر پولسُ نے کِیا، بےدھڑک بدکاری کر رہا تھا۔ اُس شخص کا بُرا اثر اِتنا پھیل گیا تھا کہ کلیسیا کے کچھ رُکنوں کو اِس کے کاموں میں کوئی بُرائی نظر نہیں آ رہی تھی۔ (1-کر 5:1، 2) اگر ایسے سنگین گُناہ کو نظرانداز کِیا جاتا تو شاید کلیسیا کے دوسرے رُکن بھی بدکاری کرنے لگتے۔ اور شہر کُرنتھس میں بدکاری تو ویسے بھی بہت عام تھی۔ لہٰذا سنگین گُناہوں کو نظرانداز کرنے سے کلیسیا کے رُکنوں کو خدا کے حکم توڑنے کی شہ مل سکتی ہے۔ (واعظ 8:11) اِس کے علاوہ ایسے گُناہگار لوگ کلیسیا میں ”دریا کی پوشیدہ چٹانیں“ بن سکتے ہیں جو دوسروں کے ایمان کا جہاز غرق کر دیتی ہیں۔—یہوداہ 4، 12۔
گُناہ کرنے والا شخص شاید ہوش میں آ جائے۔ ایک بار یسوع مسیح نے ایک جوان کا ذکر کِیا جس نے اپنے باپ کا گھر چھوڑ دیا اور اپنی ساری میراث عیاشی میں اُڑا دی۔ لیکن جلد ہی اُسے احساس ہو گیا کہ باپ کے گھر سے دُور رہ کر زندگی کتنی کٹھن اور مشکلوں سے بھری ہے۔ آخرکار بیٹا ہوش میں آیا۔ وہ تائب ہوا اور اپنے باپ کے گھر واپس لوٹ آیا۔ (لو 15:11-24) یہوواہ خدا بھی اُس باپ کی طرح محسوس کرتا ہے جو اپنے بیٹے کے لوٹ آنے پر بہت خوش ہوا۔ خدا کہتا ہے: ”شریر کے مرنے میں مجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اِس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سے باز آئے اور زندہ رہے۔“—حز 33:11۔
اِس بیٹے کی طرح شاید خارجشُدہ شخص کو بھی احساس ہو جائے کہ اُس نے کیا کھویا ہے۔ جب اُسے اپنے گُناہوں کے بُرے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں تو شاید اُسے یاد آئے کہ اُس نے کلیسیا میں دوسرے مسیحیوں کے ساتھ کتنا اچھا وقت گزارا تھا اور یہوواہ خدا کی قربت میں رہ کر اُسے کتنا سکون ملتا تھا۔ یوں ہو سکتا ہے کہ اُسے کلیسیا میں واپس آنے کی ترغیب ملے۔
زبور 141:5) فرض کریں کہ کوئی شخص کھانا کھا رہا ہے اور ایک نوالہ اُس کے حلق میں پھنس جاتا ہے۔ اُس کا سانس رُکنے لگتا ہے اور اُس کا چہرہ لال ہو جاتا ہے۔ پھر ایک دوست اُس کی کمر پر زورزور سے تھپتھپاتا ہے تاکہ نوالہ حلق سے نکل جائے۔ سچ ہے کہ زور سے تھپتھپانے سے اُس شخص کو درد تو ہوگا لیکن اِس سے اُس کی زندگی بچ سکتی ہے۔ اِسی طرح داؤد سمجھتے تھے کہ اگر صادق شخص اُن کی اِصلاح کرے تو شاید یہ تکلیفدہ ہو لیکن یہ اُن کی بہتری کے لیے ہے۔
اگر کسی شخص کی اِصلاح محبت سے کی جائے لیکن ساتھ ہی ساتھ ٹھوس اِقدام بھی اُٹھائے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ اُس شخص کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے۔ داؤد نے لکھا: ”صادق مجھے مارے تو مہربانی ہوگی۔ وہ مجھے تنبیہ کرے تو گویا سر پر روغن ہوگا۔“ (بہت سے لوگ جنہیں کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے، کچھ عرصے بعد وہ سیدھی راہ پر واپس لوٹ آتے ہیں۔ مضمون کے شروع میں خولیان کے بیٹے کا ذکر ہوا تھا۔ اُس نے دس سال کے بعد گُناہ کی زندگی چھوڑی اور کلیسیا میں واپس لوٹا۔ ابھی وہ بزرگ کے طور پر خدمت کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے: ”کلیسیا سے خارج ہونے کے بعد مجھے اپنے بُرے چالچلن کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے ایسی اِصلاح کی ضرورت تھی۔“—عبر 12:7-11۔
ہم خارجشُدہ لوگوں کے لیے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
سچ ہے کہ جب کسی کو کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے تو یہوواہ خدا کے ساتھ اُس کی دوستی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ دوستی دوبارہ سے قائم نہیں ہو سکتی۔ ہم سب کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں تاکہ اِس بندوبست کا مقصد پورا ہو جائے۔
بزرگ جو اُس شخص کو کلیسیا سے خارج ہونے کا فیصلہ سناتے ہیں، وہ یہوواہ خدا جیسی محبت ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اُسے بڑی مہربانی کے ساتھ اور واضح طور پر بتاتے ہیں کہ کلیسیا میں واپس آنے کے لیے اُسے کیا کرنا ہوگا۔ اِس کے علاوہ بزرگ وقتاًفوقتاً ایسے خارجشُدہ لوگوں سے ملنے جاتے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی بدل رہے ہیں۔ وہ اُنہیں یاد دِلاتے ہیں کہ یہوواہ کے پاس واپس لوٹنے کے لیے وہ کون سے قدم اُٹھا سکتے ہیں۔
رشتےدار بزرگوں کے فیصلے کا احترام کرنے سے کلیسیا کے لیے اور خارجشُدہ شخص کے لیے محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔ خولیان بتاتے میں: ”بھلے ہی وہ میرا بیٹا تھا لیکن بُرے کام کرکے اُس نے ہمارے بیچ میں دیوار کھڑی کر دی۔“
کلیسیا کے سب خارجشُدہ شخص کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ نہ رکھنے سے اُس کے لیے محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔ (1-کر 5:11؛ 2-یوح 10، 11) اِس طرح وہ اُس بندوبست کی حمایت کرتے ہیں جس کے ذریعے یہوواہ خدا اُس شخص کی اِصلاح کر رہا ہے۔ اِس کے علاوہ وہ خارجشُدہ شخص کے رشتےداروں کے لیے بھی خاص محبت ظاہر کر سکتے اور اُن کا سہارا بن سکتے ہیں۔ رشتےدار اِس صورتحال کی وجہ سے بہت دُکھی ہوتے ہیں اور ہم اُنہیں یہ احساس نہیں دِلانا چاہتے کہ ہم اُن کے ساتھ بھی میل جول نہیں رکھنا چاہتے ہیں۔—روم 12:13، 15۔
خولیان بتاتے ہیں: ”گُناہگاروں کو کلیسیا سے خارج کرنا واقعی ایک بہت اچھا بندوبست ہے کیونکہ اِس سے ہم یہوواہ خدا کے معیاروں پر قائم رہ سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ تکلیف کا باعث بھی ہے لیکن آخرکار اِس کے اچھے نتائج نکلتے ہیں۔ اگر مَیں نے اپنے بیٹے کے بُرے چالچلن کو نظرانداز کِیا ہوتا تو وہ کبھی یہوواہ کے پاس واپس نہیں لوٹتا۔“