یہوواہ کی لازوال محبت پر غور کریں
”مَیں تیری ساری صنعت پر دھیان کروں گا۔“—زبور 77:12۔
1، 2. (الف) کچھ مثالیں دیں جن سے ظاہر ہو کہ یہوواہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے۔ (ب) سب لوگوں کو کس چیز کی ضرورت ہے؟
آپ کو یہ یقین کیوں ہے کہ یہوواہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے؟ اِس سوال کا جواب دینے سے پہلے ذرا بہن تالین، برجٹ اور سینڈرا کی مثال پر غور کریں۔ بہن تالین اکثر اپنے حالات کی وجہ سے خدا کی خدمت میں بھرپور حصہ نہیں لے پاتی تھیں اور اِس لیے مایوس ہو جاتی تھیں۔ اُن کی کلیسیا کے بہن بھائی کئی سال تک اُنہیں بڑے پیار سے بتاتے رہے کہ یہوواہ اُن سے وہ کام کرنے کی توقع نہیں کرتا جو اُن کے بس میں نہیں ہے۔ بہن تالین نے بتایا: ”اگر یہوواہ خدا کو مجھ سے محبت نہ ہوتی تو وہ مجھے مسلسل رہنمائی فراہم نہ کرتا۔“ برجٹ نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد دو بچوں کو اکیلے پالا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”اِس بُری دُنیا میں بچوں کی پرورش کرنا بہت ہی مشکل کام ہے، خاص طور پر تب جب آپ کو یہ کام اکیلے کرنا پڑے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہوواہ خدا مجھے پیار کرتا ہے کیونکہ اُس نے غم اور مصیبت کی ہر گھڑی میں میری رہنمائی کی ہے اور کبھی مجھ پر کوئی ایسی مشکل نہیں آنے دی جو میری برداشت سے باہر ہو۔“ (1-کُر 10:13) سینڈرا کو ایک لاعلاج بیماری ہے۔ ایک علاقائی اِجتماع پر ایک بہن اُن کے ساتھ بڑے پیار سے پیش آئی اور اُن کی حوصلہافزائی کی۔ سینڈرا کے شوہر نے بتایا: ”ہم اُس بہن کو نہیں جانتے تھے لیکن اُس کی محبت اور فکرمندی نے ہمارے دلوں کو چُھو لیا۔ بہن بھائیوں کی طرف سے محبت بھری چند باتیں بھی مجھے احساس دِلاتی ہیں کہ یہوواہ ہم سے کتنا پیار کرتا ہے۔“
2 محبت ہر اِنسان کی ضرورت ہے۔ لیکن کبھی کبھار مالی مشکلات، بیماری یا مُنادی میں اچھے نتائج نہ ملنے کی وجہ سے شاید ہمیں لگے کہ یہوواہ ہم سے پیار نہیں کرتا۔ اگر آپ یہ سوچنے لگتے ہیں تو اِس حقیقت پر دھیان دیں کہ خدا آپ کو عزیز خیال کرتا ہے اور آپ کا ”دہنا ہاتھ پکڑ کر“ آپ کی مدد کرتا ہے۔ اگر ہم اُس کے وفادار رہیں گے تو وہ ہمیں کبھی نہیں بھولے گا۔—3. خدا کی لازوال محبت کے لیے ہمارے دل میں قدر کیسے بڑھے گی؟
3 جن گواہوں کی اُوپر مثال دی گئی ہے اُنہیں پورا یقین ہے کہ یہوواہ مصیبت کے وقت میں اُن کے ساتھ تھا۔ ہم بھی یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہے۔ (زبور 118:6، 7) اِس مضمون میں ہم خدا کی چار نعمتوں پر غور کریں گے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُسے ہم سے بہت پیار ہے۔ (1) اُس کی خلقت (2) اُس کا کلام (3) دُعا اور (4) فدیہ۔ یہوواہ خدا کی نعمتوں پر غور کرنے سے اُس کی لازوال محبت کے لیے ہمارے دل میں قدر اَور زیادہ بڑھے گی۔—زبور 77:11، 12 کو پڑھیں۔
یہوواہ کی خلقت پر غور کریں
4. یہوواہ کی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کرنے سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
4 خدا کی خلقت سے اُس کی لازوال محبت نظر آتی ہے۔ (روم 1:20) اُس نے زمین پر ایسا ماحولیاتی نظام بنایا ہے جس کی وجہ سے اِنسانی زندگی قائم ہے۔ لیکن اُس نے اِنسانوں کو زندگی سے لطف اُٹھانے کے لیے بھی بہت کچھ دیا ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہے۔ لیکن اُس نے صرف ایک ہی طرح کی خوراک نہیں دی بلکہ طرح طرح کی خوراک مہیا کی ہے۔ اِس لیے ہم کھانے پینے سے لطفاندوز ہوتے ہیں۔ (واعظ 9:7) بہن کیتھرین کینیڈا کی رہنے والی ہیں۔ وہ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھنے سے بہت خوشی حاصل کرتی ہیں، خاص طور پر موسمِبہار میں۔ اُنہوں نے بتایا: ”اِس موسم میں ہر طرف زندگی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ پھول کھل اُٹھتے ہیں اور پرندے اپنے گھروں کو واپس آتے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے پرندے بھی جو اکثر میرے باورچیخانے کی کھڑکی کے باہر لٹکی ٹوکری سے دانہ چگتے ہیں۔ یہوواہ یقیناً ہمیں بہت پیار کرتا ہے تبھی تو اُس نے ایسی چیزیں خلق کی ہیں جنہیں دیکھ کر ہمیں خوشی ملتی ہے۔“ ہمارا آسمانی باپ اپنی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی اُس کی خلقت سے محظوظ ہوں۔—اعما 14:16، 17۔
5. یہوواہ نے جس طرح اِنسانوں کو بنایا ہے اُس سے اُس کی محبت کیسے ظاہر ہوتی ہے؟
5 یہوواہ خدا نے ہمیں محنت سے کام کرنے اور اپنے کام سے لطف اُٹھانے کی صلاحیت دی ہے۔ (واعظ 2:24) اُس نے آدم اور حوا کو ذمےداری سونپی تھی کہ وہ زمین کو بھر دیں، اِسے کاشت کریں اور پرندوں، مچھلیوں اور دوسرے جانداروں کا خیال رکھیں۔ (پید 1:26-28) ہم اِس بات کے لیے بھی یہوواہ کے شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہمیں بہت سی خوبیاں عطا کی ہیں تاکہ ہم اُس کی مثال پر عمل کر سکیں۔—اِفس 5:1۔
خدا کے کلام کی قدر کریں
6. ہمیں اِس بات کے لیے خدا کا شکر کیوں ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے ہمیں اپنا کلام دیا ہے؟
6 یہوواہ کی محبت اِس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اُس نے ہمیں اپنا کلام دیا ہے۔ خدا کے کلام سے ہم اُس کے بارے میں اہم باتیں سیکھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اِنسانوں کے ساتھ کیسے پیش آتا ہے۔ مثال کے طور پر بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ بنیاِسرائیل کی نافرمانیوں کے باوجود اُن کے ساتھ کیسے پیش آیا۔ اِس سلسلے میں زبور 78:38 میں بتایا گیا ہے کہ ”وہ رحیم ہو کر بدکاری معاف کرتا ہے اور ہلاک نہیں کرتا بلکہ بارہا اپنے قہر کو روک لیتا ہے اور اپنے پورے غضب کو بھڑکنے نہیں دیتا۔“ اِس آیت پر سوچ بچار کرنے سے آپ سمجھ جائیں گے کہ یہوواہ آپ سے کتنا پیار کرتا ہے اور آپ کی کتنی فکر رکھتا ہے۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہوواہ کی نظر میں آپ کی بڑی قدر ہے۔—1-پطرس 5:6، 7 کو پڑھیں۔
7. ہمیں بائبل کی قدر کیوں کرنی چاہیے؟
7 ہمیں بائبل کی بڑی قدر کرنی چاہیے کیونکہ اِس کے ذریعے خدا ہم سے بات کرتا ہے۔ جب والدین اور بچے آپس میں بِلاجھجک بات کرتے ہیں تو اُن میں پیار بڑھتا ہے اور ایک دوسرے پر اُن کا اِعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ یہوواہ ہمارا شفیق آسمانی باپ ہے۔ ہم نے نہ تو کبھی اُس کو دیکھا ہے اور نہ ہی کبھی اُس کی آواز سنی ہے۔ لیکن وہ اپنے کلام کے ذریعے ہم سے بات کرتا ہے۔ ہمیں اُس کی بات پر کان لگانا چاہیے۔ (یسع 30:20، 21) چونکہ ہم اُس کے بندے ہیں اِس لیے وہ ہماری رہنمائی اور حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ہم اُسے جانیں اور اُس پر بھروسا رکھیں۔—زبور 19:7-11؛ امثال 1:33 کو پڑھیں۔
8، 9. ہمیں یہوواہ کے بارے میں کیا یقین ہے؟ مثال دیں۔
8 یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم یہ یقین رکھیں کہ وہ ہم سے پیار کرتا ہے اور ہماری خامیوں پر نظر نہیں رکھتا۔ وہ ہماری خوبیوں پر دھیان دیتا ہے۔ (2-توا 16:9) مثال کے طور پر اُس نے ملک یہوداہ کے بادشاہ یہوسفط کے سلسلے میں ایسا ہی کِیا تھا۔ جب اِسرائیل کے بادشاہ اخیاب نے یہوسفط سے کہا کہ وہ ارامیوں کے ساتھ جنگ کرنے میں اُس کا ساتھ دیں تو یہوسفط نے حامی بھر لی۔ یہ دونوں بادشاہ شہر راماتجلعاد کو ارامیوں سے واپس لینا چاہتے تھے۔ 400 جھوٹے نبیوں نے اخیاب کو یقین دِلایا کہ اُنہیں فتح حاصل ہوگی مگر یہوواہ کے نبی میکایاہ نے بتایا کہ اُنہیں شکست کھانی پڑے گی۔ اخیاب تو جنگ میں مارے گئے مگر یہوسفط کی جان بالبال بچی۔ جب وہ یروشلیم واپس آئے تو یاہو نے اُن سے کہا کہ اُنہیں اخیاب سے ناتا نہیں جوڑنا چاہیے تھا۔ لیکن یاہو نے یہ بھی کہا کہ ”تجھ میں خوبیاں“ بھی دیکھی گئی ہیں۔—2-توا 18:4، 5، 18-22، 33، 34؛ 19:1-3۔
9 جب یہوسفط نے حکومت شروع کی تھی تو اُنہوں نے اپنے اُمرا، لاویوں اور کاہنوں کو یہوداہ کے تمام شہروں میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو شریعت کی تعلیم دیں۔ یہ کام اِتنا کامیاب رہا کہ آسپاس کی قومیں بھی یہوواہ کو جاننے لگیں۔ (2-توا 17:3-10) یہ سچ ہے کہ یہوسفط نے اخیاب کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی مگر یہوواہ نے اُن کی اچھائیوں کو نظرانداز نہیں کِیا تھا۔ اِس واقعے سے ہم سیکھتے ہیں کہ اگر ہم یہوواہ کا دل شاد کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تو ہماری خامیوں کے باوجود یہوواہ ہم سے پیار کرنا نہیں چھوڑتا۔
دُعا—ایک اعزاز اور نعمت
10، 11. (الف) دُعا ایک نعمت کیوں ہے؟ (ب) خدا ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
10 ایک شفیق باپ اپنی پوری کوشش کرتا ہے کہ جب اُس کے بچے اُس سے بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ اُن کی بات دھیان سے سنے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اُس کے بچوں کے دل میں کیا ہے کیونکہ اُسے اُن کی فکر ہے۔ جب ہم اپنے آسمانی باپ یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں تو وہ بھی ہماری بات دھیان سے سنتا ہے۔ دُعا کے ذریعے یہوواہ سے بات کرنا واقعی ایک بہت بڑی نعمت اور اعزاز ہے!
11 ہم جب چاہیں یہوواہ سے دُعا کر سکتے ہیں۔ اُس نے وقت کی کوئی قید نہیں رکھی۔ وہ ہمارا دوست ہے اور ہمیشہ ہماری بات سننے کو تیار رہتا ہے۔ بہن تالین جن کا پہلے ذکر کِیا گیا ہے، اُنہوں نے کہا: ”آپ یہوواہ سے جو چاہیں کہہ سکتے ہیں۔“ جب ہم خدا کو اپنے دلی احساسات کے بارے میں بتاتے ہیں تو وہ ہمیں کسی آیت، کسی مضمون یا پھر کسی بہن یا بھائی کے ذریعے جواب فراہم کرتا ہے۔ یہوواہ ہماری اِلتجاؤں کو سنتا ہے۔ شاید دوسرے ہمارے احساسات کو نہ سمجھیں مگر یہوواہ ضرور سمجھتا ہے۔ وہ ہماری دُعاؤں کا جواب دینے سے ظاہر کرتا ہے کہ اُس کی محبت لازوال ہے۔
12. ہمیں بائبل میں درج دُعاؤں پر غور کیوں کرنا چاہیے؟ کسی ایک دُعا کا ذکر کریں۔
12 ہم اُن دُعاؤں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو خدا کے کلام میں درج ہیں۔ کبھی کبھار ہم خاندانی عبادت کے دوران اِن دُعاؤں پر غور کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہمیں بہت فائدہ ہوگا۔ جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ ماضی میں خدا کے وفادار بندوں نے خدا کے سامنے اپنے دل کا حال کیسے بیان کِیا تو ہمیں اپنی دُعاؤں کو اَور بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم یُوناہ کی دُعا پر غور کر سکتے ہیں جو اُنہوں نے ایک بڑی مچھلی کے پیٹ سے یہوواہ کے حضور پیش کی تھی۔ (یُوناہ 1:17–2:10) ہم سلیمان کی دُعا کا جائزہ لے سکتے ہیں جو اُنہوں نے ہیکل کی مخصوصیت کے وقت کی تھی۔ (1-سلا 8:22-53) ہم یسوع مسیح کی اُس دُعا پر غور کر سکتے ہیں جو اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو سکھائی تھی۔ (متی 6:9-13) سب سے اہم بات یہ ہے کہ باقاعدگی سے ’آپ کی درخواستیں خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔‘ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ”خدا کا اِطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو . . . محفوظ رکھے گا۔“ یوں یہوواہ کی لازوال محبت کے لیے ہماری قدر بڑھے گی۔—فل 4:6، 7۔
فدیے کے بندوبست کے لیے قدر ظاہر کریں
13. فدیے کی بدولت اِنسانوں کو کیا موقع ملا ہے؟
13 یہوواہ خدا نے اپنے بیٹے کی جان فدیے میں دی تاکہ ”ہم اُس کے سبب سے زندہ رہیں۔“ (1-یوح 4:9) فدیہ ایک بہت بڑی نعمت اور خدا کی محبت کا شاندار اِظہار ہے۔ اِس کے بارے میں پولُس رسول نے لکھا: ”عین وقت پر مسیح بےدینوں کی خاطر مؤا۔ کسی راستباز کی خاطر بھی مشکل سے کوئی اپنی جان دے گا مگر شاید کسی نیک آدمی کے لئے کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جُرأت کرے۔ لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مؤا۔“ (روم 5:6-8) خدا کی محبت کے اِس عظیمترین اِظہار کی بدولت تمام اِنسانوں کو یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔
14، 15. (الف) مسیحی کی قربانی کی وجہ سے ممسوح مسیحیوں کے لیے کیا ممکن ہوا ہے؟ (ب) مسیحی کی قربانی کی وجہ سے باقی مسیحیوں کے لیے کیا ممکن ہوا ہے؟
14 یہوواہ نے کچھ مسیحیوں کے لیے اپنی محبت بڑے خاص طریقے سے ظاہر کی ہے۔ (یوح 1:12، 13؛ 3:5-7) اُس نے اُنہیں روحُالقدس سے مسح کِیا ہے اور اِس طرح وہ ”خدا کے فرزند“ بن گئے ہیں۔ (روم 8:15، 16) اِن مسیحیوں کے بارے میں پولُس رسول نے کہا کہ خدا نے اُنہیں ”مسیح یسوؔع میں شامل کر کے اُس کے ساتھ جِلایا اور آسمانی مقاموں پر اُس کے ساتھ بٹھایا“ ہے۔ (اِفس 2:6) کچھ ممسوح مسیحی ابھی تک زمین پر ہیں تو پھر پولُس نے یہ کیوں کہا کہ اُنہیں ’آسمانی مقاموں پر بٹھایا گیا ہے‘؟ اُنہوں نے ایسا اِس لیے کہا کیونکہ ممسوح مسیحیوں کو ”پاک موعودہ روح کی مہر لگی“ ہے جو اُن کی ”میراث کا بیعانہ ہے۔“ اُن کی میراث وہ ’اُمید کی ہوئی چیز ہے جو اُن کے واسطے آسمان پر رکھی ہوئی ہے۔‘—اِفس 1:13، 14؛ کُل 1:5۔
15 لیکن زیادہتر مسیحی جو یسوع کی قربانی پر ایمان رکھتے ہیں وہ خدا کے دوست ہیں اور اُنہیں یہ موقع ملے گا کہ وہ فردوس میں ہمیشہ تک زندہ رہیں اور خدا کے فرزند بنیں۔ لہٰذا فدیہ فراہم کرنے سے یہوواہ نے تمام اِنسانوں کے لیے محبت ظاہر کی۔ (یوح 3:16) اگر ہم زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں اور وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہتے ہیں تو ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ نئی دُنیا میں ہمیں نہایت خوشگوار زندگی عطا کرے گا۔ اِس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فدیے کا بندوبست خدا کی لازوال محبت کا عظیمترین اِظہار ہے۔
محبت کا جواب محبت سے دیں
16. یہوواہ کی بےپناہ محبت پر غور کرنے سے ہمیں کیا ترغیب ملتی ہے؟
16 یہوواہ نے جتنے طریقوں سے محبت ظاہر کی ہے اُن کو ہم شمار بھی نہیں کر سکتے۔ داؤد نے لکھا: ”اَے خدا! تیرے خیال میرے لئے کیسے بیشبہا ہیں۔ اُن کا مجموعہ کیسا بڑا ہے! اگر مَیں اُن کو گنوں تو وہ شمار میں ریت سے بھی زیادہ ہیں۔“ (زبور 139:17، 18) یہوواہ کی بےپناہ محبت پر غور کرنے سے ہمیں ترغیب ملتی ہے کہ ہم بھی اُس سے گہری محبت کریں اور دلوجان سے اُس کی خدمت کریں۔
17، 18. یہوواہ کے لیے محبت ظاہر کرنے کے چند طریقے کون سے ہیں؟
17 ہم مختلف طریقوں سے یہوواہ کے لیے محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم مُنادی کے کام میں بھرپور حصہ لینے سے یہوواہ اور پڑوسی کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں۔ (متی 24:14؛ 28:19، 20) ہم مشکل حالات میں خدا کے وفادار رہنے سے بھی اُس کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں۔ (زبور 84:11؛ یعقوب 1:2-5 کو پڑھیں۔) اگر ہماری مشکلات اَور سخت ہوتی جاتی ہیں تو ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا ہماری تکلیف سے واقف ہے اور ہماری مدد ضرور کرے گا کیونکہ اُس کو ہماری فکر ہے۔—زبور 56:8۔
18 یہوواہ خدا سے دلی محبت ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ ہم اُس کی خلقت اور دیگر حیرتانگیز کاموں پر غور کریں۔ پوری لگن سے بائبل کا مطالعہ کرنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم خدا سے محبت کرتے ہیں اور اُس کے کلام کی قدر کرتے ہیں۔ محبت ہی ہمیں دُعا کے ذریعے خدا کے اَور زیادہ قریب جانے کی ترغیب دیتی ہے۔ جب ہم فدیے کے بندوبست پر غور کرتے ہیں تو یہوواہ کے لیے ہماری محبت اَور بڑھتی ہے۔ (1-یوح 2:1، 2) اِن چند ایک طریقوں کے علاوہ اَور بھی بہت سے طریقے ہیں جن سے ہم یہوواہ کی لازوال محبت کے بدلے اُس کے لیے محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔