آپبیتی
یہوواہ نے مجھے برکتوں سے مالامال کِیا
مَیں 1927ء میں کینیڈا کے ایک چھوٹے سے گاؤں واکاؤ میں پیدا ہوئی۔ ہم تین بہنیں اور چار بھائی تھے۔ اِس لیے مَیں بچپن سے ہی زیادہ لوگوں کے ساتھ رہنے کی عادی تھی۔
1930ء کے بعد ساری دُنیا مالی بحران کی لپیٹ میں آ گئی جس کا ہم پر بھی اثر پڑا۔ ہم امیر تو نہیں تھے مگر ہم کبھی بھوکے پیٹ بھی نہیں سوئے۔ ہمارے پاس کچھ مُرغیاں اور ایک گائے تھی۔ اِس لیے ہمارے گھر میں انڈوں، دودھ، پنیر اور مکھن کی کمی نہیں تھی۔ ہم سب مل جل کر جانوروں کی دیکھبھال اور دوسرے گھریلو کامکاج کرتے تھے۔
اُس دَور کی کچھ خوشگوار یادیں آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ مثال کے طور پر ہر سال خزاں کے موسم میں میرے ابو گھر کی اُگائی ہوئی سبزیاں وغیرہ بیچنے شہر جاتے تھے۔ واپسی پر وہ اکثر تازہ سیبوں کا بھرا ہوا ٹوکرا لے کر آتے تھے۔ اِن سیبوں کی خوشبو سے ہمارا گھر مہکتا رہتا تھا۔ ہر روز یہ رسیلے سیب کھانے کا بڑا مزہ آتا تھا۔
ہماری زندگی میں سچائی کی آمد
مَیں چھ سال کی تھی جب میرے امیابو نے سچائی سیکھنا شروع کی۔ میرا سب سے بڑا بھائی جونی پیدا ہونے کے کچھ عرصے بعد فوت ہو گیا۔ میرے امیابو کو اِس بات کا بہت دُکھ ہوا اور اُنہوں نے پادری سے پوچھا: ”جونی کہاں چلا گیا ہے؟“ پادری نے کہا: ”جونی کا ابھی بپتسمہ نہیں ہوا تھا اِس لیے وہ آسمان میں نہیں گیا بلکہ وہ اعراف میں ہے۔“ پادری نے یہ بھی بتایا کہ اگر میرے امیابو اُسے پیسے دیں گے تو وہ یہ دُعا کرے گا کہ جونی اعراف سے نکل کر آسمان پر چلا جائے۔ اگر آپ میرے امیابو کی جگہ ہوتے تو یہ بات سُن کر آپ کو کیسا لگتا؟ پادری کی بات سے میرے امیابو کو اِتنا صدمہ پہنچا کہ اُنہوں نے اُس سے بات کرنا ہی چھوڑ دی۔ لیکن وہ پھر بھی یہ سوچتے رہے کہ آخر جونی ہے کہاں؟
ایک دن امی کو انگریزی میں ایک کتاب ملی جس کا عنوان تھا: مُردے کس حالت میں ہیں؟ یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں نے شائع کی تھی۔ امی نے وہ کتاب بڑے شوق سے پڑھی۔ جب ابو گھر آئے تو امی نے فوراً اُنہیں بتایا: ”مجھے پتہ چل گیا ہے کہ جونی کہاں ہے۔ وہ ابھی سو رہا ہے لیکن ایک دن وہ جاگ اُٹھے گا۔“ اُسی شام ابو نے بھی وہ ساری کتاب پڑھ ڈالی۔ امی اور ابو دونوں کو یہ جان کر بڑی تسلی ملی کہ بائبل کے مطابق مُردے گہری نیند سو رہے ہیں اور ایک دن وہ جی اُٹھیں گے۔—واعظ 9:5، 10؛ اعما 24:15۔
امی اور ابو نے جو کچھ پڑھا اُس سے اُنہیں بڑی تسلی اور خوشی ملی۔ وہ گواہوں کے ساتھ بائبل کورس کرنے لگے اور واکاؤ کی چھوٹی سی کلیسیا میں اِجلاسوں پر جانے لگے۔ اِس کلیسیا میں زیادہتر بہن بھائیوں کا تعلق یوکرائن سے تھا۔ جلد ہی امی اور ابو نے مُنادی میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
اِس کے کچھ عرصے بعد ہم کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا منتقل ہو گئے اور یہاں کی ایک کلیسیا میں شامل ہو گئے۔ ہماری نئی کلیسیا کے بہن بھائی ہمیں بڑی خوشی سے ملے۔ مجھے وہ وقت یاد ہے جب ہم سب گھر والے مل کر اِتوار کے اِجلاس کے لیے
مینارِنگہبانی کی تیاری کرتے تھے۔ ہمارے دل میں یہوواہ خدا اور اُس کے کلام کی تعلیم کے لیے محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ اِس تعلیم کا ہم سب کی زندگی پر مثبت اثر ہو رہا تھا اور یہوواہ ہمیں برکتوں سے مالامال کر رہا تھا۔ہم چونکہ ابھی چھوٹے تھے اِس لیے ہمیں لوگوں کو خوشخبری سنانا مشکل لگتا تھا۔ اِس مشکل کو آسان کرنے کے لیے مَیں اور میری چھوٹی بہن ایوا اکثر مہینے کی پیشکش کو تیار کرتیں اور پھر خدمتی اِجلاس پر اِسے کر کے دِکھاتی تھیں۔ اِس طرح ہم شرمیلی ہونے کے باوجود دوسروں کو بائبل سے تعلیم دینے کے قابل ہوئیں۔ مَیں یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی تربیت کے لیے اُس کی بڑی شکرگزار ہوں۔
میرے بچپن کی حسین یادوں میں سے ایک یہ ہے کہ اکثر ہمارے گھر پر کُلوقتی خادم آ کر ٹھہرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب ہمارے حلقے کے نگہبان بھائی جیک ناتھن ہماری کلیسیا کا دورہ کرنے آتے تھے تو وہ ہمارے ساتھ ٹھہرتے تھے۔ اُنہیں اپنی خدمت کے دوران بہت سے دلچسپ تجربات ہوئے تھے جن کے بارے میں سُن کر ہمیں بہت مزہ آتا تھا۔ وہ ہماری بڑی حوصلہافزائی بھی کرتے تھے۔ اُن کی باتوں سے ہمیں وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرنے کی ترغیب ملتی تھی۔
مَیں اکثر سوچتی تھی کہ ”مَیں بڑی ہو کر بھائی ناتھن کی طرح خدمت کروں گی۔“ لیکن اُس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اُن کی مثال کُلوقتی خدمت اِختیار کرنے میں میرے اِتنے کام آئے گی۔ جب مَیں 15 سال کی ہوئی تو مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں یہوواہ کی خدمت کروں گی۔ لہٰذا 1942ء میں، مَیں نے اور ایوا نے بپتسمہ لے لیا۔
مشکلات کے باوجود ثابتقدم
دوسری عالمی جنگ کے دوران وطنپرستی زوروں پر تھی۔ میری دو بہنوں اور ایک بھائی کو اُن کی ٹیچر مس سکاٹ نے سکول سے نکال دیا۔ وجہ یہ تھی کہ اُنہوں نے جھنڈے کو سلامی نہیں دی تھی۔ مس سکاٹ نے پھر میری ٹیچر سے کہا کہ وہ مجھے بھی سکول سے نکال دے۔ لیکن میری ٹیچر نے کہا کہ ”ہم ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں اور ہر کسی کو قومی تقریبوں میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔“ مس سکاٹ کے بےتحاشا دباؤ کے باوجود میری ٹیچر اپنی بات پر قائم رہی۔
مس سکاٹ نے کہا: ”اگر تُم نے ملیتا کو سکول سے نہ نکالا تو مَیں تمہاری شکایت اُوپر کروں گی۔“ میری ٹیچر نے میرے امی اور ابو کو بتایا کہ اُسے اپنی نوکری بچانے کے لیے مجھے سکول سے نکالنا ہی پڑے گا حالانکہ وہ جانتی ہے کہ ایسا کرنا صحیح نہیں۔ بہرحال ہمیں سکول کا کورس دے دیا گیا تاکہ ہم گھر پر اُس کا مطالعہ کر سکیں۔ اِس کے کچھ عرصے بعد ہم کوئی 32 کلومیٹر (20 میل) دُور کسی اَور علاقے میں چلے گئے جہاں ہمیں ایک سکول میں داخلہ مل گیا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران ہماری کتابوں اور رسالوں وغیرہ کی تقسیم پر پابندی لگا دی گئی پھر بھی ہم صرف بائبل سے گھر گھر مُنادی کرتے رہے۔ یوں براہِراست بائبل سے خوشخبری سنانے کی ہماری مہارت اَور نکھر گئی۔ اِس کے نتیجے میں ہم روحانی لحاظ سے اَور پُختہ ہو گئے اور ہمیں محسوس ہوا کہ یہوواہ پہلے سے کہیں زیادہ مُنادی کے کام میں ہماری مدد کر رہا ہے۔
کُلوقتی خدمت کا آغاز
جیسے ہی مَیں اور ایوا سکول سے فارغ ہوئیں، ہم نے پہلکاروں کے طور پر خدمت شروع کر دی۔ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے پہلے مَیں نے ایک دُکان میں کام کِیا جہاں کھانے پینے کی چیزیں بکتی تھیں۔ اِس کے کچھ عرصے بعد مَیں نے بال کاٹنے اور بالوں کے سٹائل بنانے کا چھ مہینے کا کورس کِیا۔ مجھے اِس کام کا شوق تھا اور اکثر میں اپنے گھر والوں کے بھی بال کاٹتی اور بناتی تھی۔ مجھے ایک بیوٹی پارلر میں کام مل گیا۔ مَیں وہاں دو دن کام کرتی تھی اور مہینے میں دو بار یہ کام دوسروں کو سکھاتی تھی۔ یوں مَیں کُلوقتی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے خرچے بھی پورے کرنے کے قابل ہوئی۔
مَیں 1955ء میں امریکہ کے شہر نیو یارک اور جرمنی کے شہر نورمبرگ جانا چاہتی تھی کیونکہ وہاں بینالاقوامی اِجتماع منعقد ہو رہے تھے جن کا عنوان تھا: ”بادشاہت کی کامرانیاں۔“ نیو یارک جانے سے پہلے ملک کینیڈا کے شہر وینکوور میں میری ملاقات بھائی ناتھن نار سے ہوئی۔ وہ اِسی اِجتماع کے لیے یہاں آئے ہوئے تھے۔ دراصل مجھے بھائی نار کی بیوی کے بال بنانے کے لیے کہا گیا تھا۔ بھائی نار کو میرا کام اِتنا پسند آیا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ باتوں باتوں میں مَیں نے اُنہیں بتایا کہ مَیں جرمنی جانے سے پہلے نیو یارک جاؤں گی۔ اُنہوں نے مجھے بروکلن کے بیتایل میں نو دن کے لیے کام کرنے کا شرف دیا۔
نیو یارک جا کر میری زندگی میں ایک بہت ہی حسین موڑ آیا۔ وہاں میری ملاقات ایک جوان گواہ سے ہوئی جس کا نام تھیوڈور جیرس تھا لیکن سب اُسے پیار سے ٹیڈ بلاتے تھے۔ ابھی ہمیں ملے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ٹیڈ نے مجھ سے پوچھا: ”کیا آپ پہلکار ہیں؟“ مَیں نے کہا: ”نہیں۔“ میری سہیلی لیوون کچھ ہی دُور کھڑی ہماری باتیں سُن رہی تھی اور وہ بول پڑی: ”ہاں ہاں، وہ پہلکار ہے۔“ ٹیڈ حیران ہوئے اور لیوون سے پوچھا: ”مَیں کس کی بات مانوں، تمہاری یا اِس کی؟“ مَیں نے ٹیڈ کو بتایا کہ مَیں پہلکار کے طور پر خدمت کر رہی تھی اور کینیڈا واپس جا کر دوبارہ شروع کروں گی۔
ایک پُختہ مسیحی سے شادی
ٹیڈ 1925ء میں امریکہ کی ریاست کینٹکی میں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے 15 سال کی عمر میں بپتسمہ لیا۔ اُن کے گھر والوں میں سے کسی اَور نے سچائی کو قبول نہیں کِیا۔ مگر ٹیڈ بپتسمے کے دو سال بعد پہلکار بن گئے اور یوں اُن کی تقریباً 67 سالہ کُلوقتی خدمت کا آغاز ہوا۔
جولائی 1946ء میں ٹیڈ نے واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی ساتویں کلاس سے تربیت حاصل کی۔ اُس وقت اُن کی عمر 20 سال تھی۔ اِس کے بعد اُنہوں نے امریکہ کی ریاست اوہائیو میں سفری نگہبان کے طور پر خدمت شروع کی۔ چار سال بعد اُنہیں آسٹریلیا میں برانچ کی نگہبانی کرنے کی ذمےداری سونپی گئی۔
ٹیڈ بھی شہر نورمبرگ میں ہونے والے اِجتماع پر آئے اور ہمیں کچھ وقت ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔ اِس دوران ہم ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔ مجھے اِس بات کی خوشی تھی کہ ٹیڈ بھی اپنی زندگی خدا کی خدمت میں گزارنا چاہتے ہیں۔ وہ یہوواہ کی عبادت اور خدمت کے سلسلے میں بڑے جوشیلے اور سنجیدہ تھے مگر اِس کے ساتھ ہی ساتھ وہ بہت خوشمزاج اور مہربان بھی تھے۔ وہ اپنا نہیں بلکہ دوسروں کا فائدہ سوچتے تھے۔ اِجتماع کے بعد ٹیڈ آسٹریلیا چلے گئے اور مَیں وینکوور آ گئی۔ لیکن ہم نے خطوں کے ذریعے رابطہ قائم رکھا۔
آسٹریلیا میں تقریباً پانچ سال گزارنے کے بعد ٹیڈ امریکہ واپس آ گئے اور پھر وینکوور میں پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کے لیے چلے گئے۔ ٹیڈ میرے گھر والوں کو بہت پسند آئے۔ میرا بڑا بھائی مائیکل میرا بہت خیال رکھتا تھا اِس لیے جب بھی کوئی لڑکا مجھ میں دلچسپی لینے لگتا تو اُسے فکر ہونے لگتی تھی۔ لیکن مائیکل کو ٹیڈ سے جلد ہی لگاؤ ہو گیا۔ اُس نے مجھ سے کہا: ”ٹیڈ بہت اچھا شخص ہے اِس لیے سمجھداری سے کام لینا تاکہ تُم کہیں اُسے کھو نہ دو۔“
مجھے بھی ٹیڈ کی خوبیاں بھا گئی تھیں۔ ہم نے 10 دسمبر 1956ء کو شادی کر لی۔ ہم نے وینکوور اور کیلیفورنیا میں پہلکاروں کے طور پر خدمت کی اور پھر ٹیڈ کو امریکہ کی ریاست میسوری اور آرکنساس میں سفری نگہبان کے طور پر مقرر کر دیا گیا۔ تقریباً 18 سال تک ہم امریکہ کی مختلف ریاستوں میں خدمت کرتے رہے۔ اِس وجہ سے ہمیں ہر ہفتے ایک نئے گھر میں رہنا پڑا۔ مُنادی کے کام میں اور بہن بھائیوں کے ساتھ ہمارا وقت بہت اچھا گزرا۔ اگرچہ ہر ہفتے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا آسان نہیں تھا پھر بھی ہمیں اِس خدمت سے بڑی خوشی ملی۔
مجھے ٹیڈ کی ایک بات بہت پسند تھی۔ اُنہوں نے یہوواہ کے ساتھ دوستی کو کبھی معمولی خیال نہیں کِیا تھا بلکہ کائنات کے حاکم کی خدمت کو ہمیشہ ایک اعزاز سمجھا۔ ہم بڑے شوق سے مل کر بائبل کو پڑھتے اور اِس پر سوچ بچار کرتے تھے۔ رات کو سونے سے پہلے ہم اپنے بستر کے پاس گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جاتے تھے اور پھر ٹیڈ دُعا کرتے تھے۔ اِس کے بعد ہم دونوں اپنی اپنی دُعا بھی کرتے تھے۔ جب ٹیڈ کسی بات کی وجہ سے پریشان ہوتے تھے تو مجھے پتہ چل جاتا تھا کیونکہ وہ رات کو بستر سے
اُٹھ کر، گھٹنے ٹیک کر کافی دیر تک دُعا کرتے تھے۔ مجھے اُن کی یہ بات بڑی اچھی لگتی تھی کہ وہ ہر چھوٹے بڑے معاملے میں یہوواہ سے دُعا کرتے تھے۔ہماری شادی کے کچھ سال بعد ٹیڈ نے مجھے بتایا کہ وہ مسیح کی یادگاری تقریب پر روٹی اور مے اِستعمال کریں گے۔ اُنہوں نے مجھے بتایا: ”مَیں اِس معاملے کے بارے میں بڑی دیر سے دُعا کر رہا ہوں کیونکہ مَیں پورا یقین کر لینا چاہتا ہوں کہ میرا روٹی اور مے سے کھانا پینا یہوواہ کی مرضی کے مطابق ہے۔“ یہ میرے لیے اِتنی حیرت کی بات نہیں تھی کہ یہوواہ خدا نے ٹیڈ کو آسمان میں خدمت کرنے کے لیے روح سے مسح کِیا ہے۔ مجھے اِس بات کی خوشی تھی کہ مَیں مسیح کے ایک بھائی کا ساتھ دوں گی۔—متی 25:35-40۔
خدا کی خدمت میں ایک نیا موڑ
1974ء میں ہمیں ایک بہت حیرانکُن خبر ملی۔ ٹیڈ کو گورننگ باڈی کے ایک رُکن کے طور پر خدمت کرنے کے لیے بلایا گیا۔ اِس لیے ہم بروکلن کے بیتایل میں آ گئے۔ ٹیڈ نے گورننگ باڈی کے رُکن کے طور پر کچھ ذمےداریاں سنبھالیں جبکہ مجھے بیتایل کے کمروں کی صفائی کرنے اور بہنوں کے بال کاٹنے کا کام دیا گیا۔
ٹیڈ کو مختلف برانچوں کا دورہ کرنے کی ذمےداری بھی سونپی گئی۔ اُنہیں خاص طور پر مشرقی یورپ میں مُنادی کے کام میں بڑی دلچسپی تھی کیونکہ وہاں کچھ ملکوں میں ہمارے کام پر پابندی تھی۔ ایک مرتبہ ہم چھٹیاں منانے سویڈن گئے کیونکہ ہم کام کی وجہ سے تھک کر چور ہو گئے تھے۔ لیکن پھر ٹیڈ نے مجھ سے کہا: ”پولینڈ میں ہمارے کام پر پابندی ہے اور مَیں وہاں جا کر بھائیوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔“ لہٰذا ہم نے ویزے لگوائے اور پولینڈ چلے گئے۔ وہاں ٹیڈ کچھ ذمےدار بھائیوں سے ملے اور وہ سب لمبی چہلقدمی کے لیے نکلے تاکہ کوئی اُن کی بات نہ سُن سکے۔ چار دن تک بھائیوں کی باتچیت چلتی رہی۔ لیکن مجھے خوشی اِس بات کی تھی کہ اُن بھائیوں کی مدد کر کے ٹیڈ بہت مطمئن تھے۔
نومبر 1977ء میں ہم دوبارہ پولینڈ گئے۔ گورننگ باڈی نے پہلی بار اپنے تین ارکان بھائی فرینز، بھائی سڈلک اور ٹیڈ کو وہاں بھیجا۔ ہمارے کام پر ابھی بھی پابندی تھی پھر بھی اِن تینوں نے مختلف شہروں میں بزرگوں، پہلکاروں اور دیگر بہن بھائیوں سے ملاقات کی۔
اگلے سال جب بھائی ہینشل اور ٹیڈ پولینڈ گئے تو وہ کچھ سرکاری افسروں سے ملے۔ اُس وقت ہمارے کام کے حوالے سے حکومت کے رویے میں کچھ نرمی آ گئی تھی۔ 1982ء میں حکومت نے ہمارے بھائیوں کو مختلف جگہوں پر ایک روزہ اِجتماع منعقد کرنے کی اِجازت دے دی۔ اگلے سال زیادہ بڑے اِجتماع منعقد کیے گئے۔ زیادہتر اِجتماع کرایے کے ہالوں میں ہوئے۔ حالانکہ 1985ء میں پابندی ابھی بھی لگی ہوئی تھی پھر بھی ہمیں بڑے بڑے سٹیڈیم میں چار صوبائی اِجتماع منعقد کرنے کی اِجازت مل گئی۔ مئی 1989ء میں اَور بڑے اِجتماع منعقد کرنے کی تیاریاں چل رہی تھیں جب پولینڈ کی حکومت نے ہمارے کام سے پابندی ہٹا لی۔ اِس پر ٹیڈ کی خوشی کی اِنتہا نہ رہی۔
بیماری کا سامنا
2007ء میں ہم جنوبی افریقہ کی برانچ کی مخصوصیت کے لیے روانہ ہوئے مگر ہم کچھ دیر کے لیے اِنگلینڈ میں رُکے۔ وہاں ٹیڈ کا بلڈپریشر بڑھ گیا اِس لیے ڈاکٹر نے ہمیں جنوبی افریقہ نہ جانے کا مشورہ دیا۔ جب ٹیڈ کی طبیعت کچھ سنبھلی تو ہم امریکہ لوٹ آئے۔ لیکن کچھ ہفتے بعد ٹیڈ کو فالج ہوا جس کی وجہ سے اُن کے جسم کا دایاں حصہ ناکارہ ہو گیا۔
ٹیڈ کی حالت میں کچھ خاص فرق نہیں آ رہا تھا اور شروع شروع میں تو وہ کام کے لیے بھی نہیں جا پاتے تھے۔ لیکن اچھی بات یہ تھی کہ وہ بول سکتے تھے۔ فالج کے باوجود ٹیڈ اپنے معمول کے کچھ کام کرتے رہے یہاں تک کہ اپنے کمرے سے وہ ٹیلیفون کے ذریعے گورننگ باڈی کے اِجلاسوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔
ٹیڈ اِس بات کے لیے بڑے شکرگزار تھے کہ بیتایل کی نرسیں اُن کی بڑی اچھی طرح دیکھبھال کر رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ تھوڑا چلنے پھرنے لگے اور اپنی کچھ ذمےداریاں بھی پوری کرنے کے قابل ہو گئے۔ وہ ہمیشہ ہنستے مسکراتے نظر آتے تھے۔
اِس کے تین سال بعد ٹیڈ کو دوبارہ فالج ہوا اور وہ 9 جون 2010ء کو بدھ کے روز فوت ہو گئے۔ مجھے یہ تو معلوم ہی تھا کہ ایک دن ٹیڈ کو اپنی زمینی زندگی ختم کرنی ہے لیکن اُن کی موت سے مجھے بہت دُکھ ہوا۔ مَیں بتا نہیں سکتی کہ وہ مجھے کتنے یاد آتے ہیں۔ مَیں ہر روز یہوواہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مَیں ٹیڈ کا ساتھ نبھانے کے قابل ہوئی۔ ہم دونوں نے مل کر 53 سے زیادہ سال کُلوقتی خدمت کی۔ مَیں اِس بات کے لیے بھی شکرگزار ہوں کہ ٹیڈ نے آسمانی باپ یہوواہ کے اَور قریب جانے میں میری بڑی مدد کی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی نئی ذمےداری سے بہت خوش اور مطمئن ہیں۔
کچھ نئے مسائل
مَیں نے اپنے شوہر کے ساتھ بہت خوشگوار وقت گزارا اور ہم یہوواہ کی خدمت میں مگن رہے۔ اب مجھے روزمرہ کے مسائل سے نپٹنا کچھ مشکل لگتا ہے۔ مجھے اور ٹیڈ کو کنگڈم ہال اور بیتایل میں آنے والے بہن بھائیوں سے ملنا بہت اچھا لگتا تھا۔ اب ٹیڈ میرے ساتھ نہیں ہیں اور مَیں بھی پہلے جتنی توانا نہیں ہوں۔ اِس لیے میرا بہن بھائیوں سے ملنا جلنا پہلے سے کچھ کم ہو گیا ہے۔ لیکن مَیں اب بھی بیتایل میں اور کلیسیا میں بہن بھائیوں سے مل کر بہت خوش ہوتی ہوں۔ بیتایل کے معمول پر چلنا آسان نہیں ہے لیکن یہاں رہ کر یہوواہ کی خدمت کرنا بڑی خوشی کا باعث ہے۔ اور مُنادی کے کام کے لیے میرا شوق اور جوش ابھی بھی قائم ہے۔ اگرچہ اب مَیں جلدی تھک جاتی ہوں اور زیادہ دیر تک کھڑی نہیں رہ سکتی پھر بھی مَیں راہگیروں کو گواہی دینے اور لوگوں کو بائبل کورس کرانے سے خوشی اور اِطمینان حاصل کرتی ہوں۔
یہ دُنیا بُرائی اور مسائل کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ مَیں نے اپنی زندگی ایک بہت ہی اچھے جیون ساتھی کے ساتھ یہوواہ کی خدمت میں گزاری۔ یہوواہ نے واقعی مجھے برکتوں سے مالامال کِیا ہے۔—امثا 10:22۔