مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں دوڑتے رہیں

ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں دوڑتے رہیں

ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں دوڑتے رہیں

‏”‏آؤ ہم .‏ .‏ .‏ اُس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔‏“‏—‏عبر ۱۲:‏۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ پولس رسول نے سچے مسیحیوں کی زندگی کو کس چیز سے تشبیہ دی؟‏

ہر سال جگہ‌جگہ میراتھن دوڑ کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔‏ اِس دوڑ میں حصہ لینے والوں کو ۴۲ کلومیٹر (‏۲۶ میل)‏ کا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے۔‏ اچھے کھلاڑی جیتنے کے لئے اِس دوڑ میں حصہ لیتے ہیں۔‏ لیکن زیادہ‌تر کھلاڑی جانتے ہیں کہ وہ اِس دوڑ میں جیت نہیں سکتے۔‏ اُن کے لئے یہی فخر کی بات ہے کہ اُنہوں نے مسلسل دوڑتے ہوئے اِتنا لمبا فاصلہ طے کِیا۔‏

۲ بائبل میں کہا گیا ہے کہ سچے مسیحیوں کی زندگی ایک دوڑ کی طرح ہے۔‏ پولس رسول نے کُرنتھس کے مسیحیوں کے نام اپنے پہلے خط میں لکھا:‏ ”‏کیا تُم نہیں جانتے کہ دوڑ میں دوڑنے والے دوڑتے تو سب ہی ہیں مگر انعام ایک ہی لے جاتا ہے؟‏ تُم بھی ایسے ہی دوڑو تاکہ جیتو۔‏“‏—‏۱-‏کر ۹:‏۲۴‏۔‏

۳.‏ پولس رسول نے یہ کیوں کہا کہ ”‏دوڑ میں .‏ .‏ .‏ انعام ایک ہی لے جاتا ہے“‏؟‏

۳ کیا پولس رسول یہ کہنا چاہتے تھے کہ صرف ایک ہی مسیحی اِس دوڑ میں انعام جیتے گا جبکہ باقی مسیحی خالی ہاتھ رہ جائیں گے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ پولس رسول یہ کہنا چاہتے تھے کہ دوڑ میں شریک ہونے والے تمام کھلاڑی انعام جیتنا چاہتے ہیں اِس لئے وہ اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کے لئے سخت محنت کرتے ہیں۔‏ اِسی طرح مسیحیوں کو بھی سخت محنت اور کوشش کرنی ہوگی تاکہ وہ ہمیشہ کی زندگی کا انعام حاصل کر سکیں۔‏ فرق صرف یہ ہے کہ ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو مکمل کرنے والے ہر شخص کو انعام ملے گا جبکہ دوسری دوڑ میں صرف اُس کھلاڑی کو انعام ملتا ہے جو جیتتا ہے۔‏

۴.‏ مسیحی جس دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں،‏ اِس کے متعلق ہمیں کن سوالوں پر غور کرنا چاہئے؟‏

۴ پہلا کرنتھیوں ۹:‏۲۴ میں پولس رسول کی بات سے ہماری ہمت بڑھتی ہے۔‏ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہئے۔‏ یہ اِتنا اہم کیوں ہے؟‏ کیونکہ دوڑ مکمل کرنے والوں کو انعام میں ہمیشہ کی زندگی ملے گی چاہے یہ زمین پر ہو یا آسمان پر۔‏ اِس سے بہتر انعام کیا ہو سکتا ہے؟‏ دراصل سچے مسیحیوں کی زندگی ایک بہت ہی لمبی دوڑ کی طرح ہے اور راستے میں بہت سے خطرے اور رُکاوٹیں ہیں۔‏ ہر موڑ پر ایسی رُکاوٹیں آتی ہیں جن کی وجہ سے خدا کی خدمت میں ہماری رفتار یا تو کم ہو سکتی ہے یا پھر ہم آدھی دوڑ میں ہمت ہار کر رُک سکتے ہیں۔‏ (‏متی ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ افسوس کی بات ہے کہ بعض مسیحیوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔‏ اِس لئے یہ سوال اُٹھتے ہیں کہ ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں کونسی رُکاوٹیں اور خطرے ہیں؟‏ ہم اِن سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اِس دوڑ کو مکمل کریں اور انعام جیتیں؟‏

ہمت نہ ہاریں اور جیتیں

۵.‏ پولس رسول نے عبرانیوں ۱۲:‏۱ میں کیا کہا؟‏

۵ جب پولس رسول نے یہودیہ اور یروشلیم میں رہنے والے مسیحیوں کو خط لکھا تو اُنہوں نے پھر سے دوڑ میں حصہ لینے کی تمثیل دی۔‏ ‏(‏عبرانیوں ۱۲:‏۱ کو پڑھیں۔‏)‏ اُنہوں نے وضاحت کی کہ مسیحیوں کو اِس دوڑ میں کیوں دوڑتے رہنا چاہئے اور وہ اِس کو کیسے مکمل کر سکتے ہیں۔‏ پہلے تو ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ پولس رسول نے عبرانیوں کے نام خط کیوں لکھا اور وہ کیا کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔‏ پھر ہم دیکھیں گے کہ ہم پولس رسول کی باتوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

۶.‏ مسیحی کس کٹھن صورتحال سے گزر رہے تھے؟‏

۶ پہلی صدی کے مسیحیوں کو مخالفت اور مصیبتوں کا سامنا تھا۔‏ اور خاص طور پر یہودیہ اور یروشلیم میں رہنے والے مسیحی بہت ہی کٹھن صورتحال سے گزر رہے تھے کیونکہ یہودیوں کے مذہبی پیشوا لوگوں پر اپنی مرضی چلا رہے تھے۔‏ تقریباً ۳۰ سال پہلے کی بات تھی کہ اِن پیشواؤں نے یسوع مسیح پر حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کا الزام لگایا جس کی وجہ سے یسوع مسیح کو سزائےموت دی گئی۔‏ اب یہ لوگ یسوع مسیح کے شاگردوں کو اذیت پہنچانے پر تلے ہوئے تھے۔‏ اعمال کی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ۳۳ء کی عیدِپنتِکُست کے بعد مسیحیوں پر کیا گزری۔‏ یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں نے مسیحیوں کو باربار تشدد کا نشانہ بنایا تاکہ وہ بادشاہت کی مُنادی کرنا بند کر دیں۔‏ واقعی پہلی صدی کے مسیحیوں کو بڑی مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔‏—‏اعما ۴:‏۱-‏۳؛‏ ۵:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ ۶:‏۸-‏۱۲؛‏ ۷:‏۵۹؛‏ ۸:‏۱،‏ ۳‏۔‏

۷.‏ یہودیہ اور یروشلیم میں رہنے والے مسیحی کس مشکل دور میں رہ رہے تھے؟‏

۷ یہودیہ اور یروشلیم میں رہنے والے مسیحی ایسے دور میں رہ رہے تھے جب یروشلیم کی تباہی نزدیک تھی۔‏ یسوع مسیح نے اُن کو بتایا کہ جب یہ تباہی آئے گی تو یہودی قوم پر کیا گزرے گی۔‏ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ اِس تباہی سے پہلے کون‌کون‌سے واقعات پیش آئیں گے اور مسیحیوں کو کیا کرنا ہوگا تاکہ وہ اِس تباہی سے بچ سکیں۔‏ ‏(‏لوقا ۲۱:‏۲۰-‏۲۲ کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع مسیح نے مسیحیوں کو آگاہ کِیا:‏ ”‏خبردار رہو۔‏ ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل خمار اور نشہ بازی اور اِس زندگی کی فکروں سے سُست ہو جائیں اور وہ دن تُم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے۔‏“‏—‏لو ۲۱:‏۳۴‏۔‏

۸.‏ کچھ مسیحیوں نے دوڑ میں رفتار کیوں کم کر دی تھی؟‏

۸ جب پولس رسول نے عبرانیوں کے نام خط لکھا تو یسوع مسیح کی موت کو تقریباً ۳۰ سال گزر چکے تھے۔‏ کیا اِتنے سال بیت جانے کے بعد بھی اِن مسیحیوں نے یسوع مسیح کی آگاہیوں کو یاد رکھا تھا؟‏ اُن کی طرزِزندگی سے کیا ظاہر ہو رہا تھا؟‏ کچھ مسیحی زندگی کی مصروفیات میں اِس حد تک اُلجھ گئے تھے کہ اُن کے پاس اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کا وقت ہی نہیں رہا۔‏ (‏عبر ۵:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ بعض مسیحیوں نے سوچا کہ ”‏یہودی بھی تو خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور اُس کی شریعت پر عمل کرتے ہیں۔‏ سو اگر مَیں بھی اُن کی طرح زندگی گزاروں تو اِس میں کیا حرج ہے۔‏“‏ اِس کے علاوہ کلیسیا میں کچھ ایسے مسیحی تھے جو بہن‌بھائیوں کو یہودیوں کی روایتوں اور شریعت کی پابندی کرنے پر مجبور کر رہے تھے۔‏ کچھ بہن‌بھائی تو اِن مسیحیوں کی باتوں کے قائل ہو گئے جبکہ دوسرے ڈر کے مارے اُن کا کہنا ماننے لگے۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ پولس رسول نے کیا کِیا تاکہ اِن مسیحیوں کا ایمان مضبوط رہے اور وہ اپنی دوڑ کو مکمل کر سکیں۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏الف)‏ پولس رسول نے عبرانیوں ۱۰:‏۱،‏ ۳۶،‏ ۳۷ میں مسیحیوں کو کیا کرنے کی حوصلہ‌افزائی کی؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول نے قدیم زمانے کے بہت سے ایسے آدمیوں اور عورتوں کا ذکر کیوں کِیا جو یہوواہ خدا پر حقیقی ایمان رکھتے تھے؟‏

۹ یہوواہ خدا اِن مسیحیوں کے ایمان کو مضبوط کرنا چاہتا تھا اِس لئے اُس نے اپنی پاک روح کے ذریعے پولس رسول سے عبرانیوں کے نام خط لکھوایا۔‏ پولس رسول نے اِس خط کے دسویں باب میں مسیحیوں کو سمجھایا کہ شریعت تو ’‏آیندہ کی اچھی چیزوں کا محض عکس‘‏ تھی لیکن اُن کے گُناہ یسوع مسیح کی قربانی ہی کی بِنا پر معاف ہو سکتے ہیں۔‏ پھر پولس رسول نے مسیحیوں کو بتایا کہ اِس قربانی سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے اُنہیں اپنی دوڑ کو جاری رکھنا ہوگا اور دوڑ مکمل کرنی ہوگی۔‏ اُنہوں نے مسیحیوں کو تاکید کی کہ ”‏تمہیں صبر کرنا ضرور ہے تاکہ خدا کی مرضی پوری کرکے وعدہ کی ہوئی چیز حاصل کرو۔‏ اور اب بہت ہی تھوڑی مُدت باقی ہے کہ آنے والا آئے گا اور دیر نہ کرے گا۔‏“‏—‏عبر ۱۰:‏۱،‏ ۳۶،‏ ۳۷‏۔‏

۱۰ اِن الفاظ سے پولس رسول مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کر رہے تھے کہ وہ آگے کو بھی ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں دوڑتے رہیں۔‏ پھر عبرانیوں کے بارھویں باب میں اُنہوں نے دوبارہ سے مسیحیوں سے کہا کہ وہ ”‏دوڑ میں صبر سے دوڑیں۔‏“‏ لیکن گیارھویں باب میں پولس رسول نے خدا کے الہام سے ایمان کے موضوع پر بات کی۔‏ اُنہوں نے بتایا کہ حقیقی ایمان میں کیا کچھ شامل ہے۔‏ لیکن پولس رسول نے اِس باب میں ایمان کے موضوع پر کیوں بات کی؟‏ دراصل وہ جانتے تھے کہ مسیحیوں کو اپنے ایمان کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہوگا اور اِس لئے اُن کو جُرأت سے کام لینے اور ثابت‌قدم رہنے کی ضرورت ہوگی۔‏ پولس رسول نے قدیم زمانے کے بہت سے ایسے آدمیوں اور عورتوں کا ذکر کِیا جو یہوواہ خدا پر حقیقی ایمان رکھتے تھے اور مشکل صورتحال میں بھی اُس کے وفادار رہے۔‏ مسیحی اِن آدمیوں اور عورتوں کی مثال پر غور کرنے سے ہمت باندھ سکتے تھے اور مخالفت،‏ مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کرنے کی قوت پا سکتے تھے۔‏ اِس بات کا ذکر کرنے کے بعد کہ اِن لوگوں نے کس طرح سے ایمان کی مثال قائم کی،‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏پس جب کہ گواہوں کا ایسا بڑا بادل ہمیں گھیرے ہوئے ہے تو آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اُس گُناہ کو جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے دُور کرکے اُس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔‏“‏—‏عبر ۱۲:‏۱‏۔‏

‏’‏گواہوں کا بڑا بادل‘‏

۱۱.‏ ’‏گواہوں کے بڑے بادل‘‏ پر غور کرنے سے ہمیں کونسا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۱۱ پولس رسول نے خدا کے ایسے خادموں کا ذکر کِیا جو مسیحی زمانے سے پہلے رہتے تھے۔‏ اُنہوں نے کہا کہ یہ لوگ ’‏گواہوں کا ایک بڑا بادل‘‏ ہیں جو ہمیں گھیرے ہوئے ہے۔‏ ’‏گواہوں کے اِس بڑے بادل‘‏ میں شامل لوگ ایسے کھلاڑی تھے جنہوں نے ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں حصہ لیا اور اِسے مکمل کِیا۔‏ یہ لوگ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک خدا کے وفادار رہے۔‏ اِن کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحی بھی ہر صورت میں یہوواہ خدا کے وفادار رہ سکتے ہیں۔‏ اِن کی مثال پر غور کرنے سے یہودیہ اور یروشلیم کے مسیحیوں کو پکا یقین ہو جاتا کہ وہ بھی مشکل صورتحال کے باوجود ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو مکمل کر سکتے ہیں۔‏ اور اُن کی طرح ہم بھی اِس دوڑ کو مکمل کر سکتے ہیں۔‏

۱۲.‏ ہمیں خدا کے اُن خادموں کی مثالوں پر کیوں غور کرنا چاہئے جن کا ذکر پولس رسول نے کِیا تھا؟‏

۱۲ پولس رسول نے خدا کے جن خادموں کا ذکر کِیا،‏ اُن میں سے بعض کے حالات ہمارے حالات جیسے تھے۔‏ مثال کے طور پر نوح اُس زمانے میں رہ رہے تھے جب یہوواہ خدا طوفان کے ذریعے دُنیا کو ختم کرنے والا تھا۔‏ اور ہم بھی ایک ایسے زمانے میں رہ رہے ہیں جب خدا شیطان کی دُنیا کو ختم کرنے والا ہے۔‏ یہوواہ خدا نے ابرہام اور سارہ سے کہا کہ وہ اپنا وطن چھوڑ دیں۔‏ خدا نے وعدہ کِیا کہ اُن سے ایک قوم پیدا ہوگی جو اُس کی عبادت کرے گی۔‏ ابرہام اور سارہ نے خدا کا کہنا مانا اور اُس وقت کا انتظار کِیا جب خدا کے یہ وعدے پورے ہوں۔‏ یہوواہ خدا نے ہم سے بھی کہا ہے کہ ہم اپنے لئے جینا چھوڑ دیں اور آگے کو اُس کے لئے جئیں۔‏ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ اگر ہم اُس کا کہنا مانیں گے تو وہ ہمیں بہت سی برکتیں دے گا۔‏ موسیٰ کو بڑے خطرناک بیابان سے گزرنا پڑا تاکہ وہ اُس ملک میں داخل ہو سکیں جس کا وعدہ خدا نے کِیا تھا۔‏ ہم جس دُنیا میں رہ رہے ہیں،‏ یہ بھی ایک خطرناک بیابان کی طرح ہے جس سے گزر کر ہم نئی دُنیا میں داخل ہوں گے۔‏ ہمیں خدا کے اِن خادموں کی زندگی،‏ اُن کی کامیابیوں اور کوتاہیوں اور اُن کی خوبیوں اور کمزوریوں پر غور کرنا چاہئے تاکہ ہم اِن سے سیکھ سکیں۔‏—‏روم ۱۵:‏۴؛‏ ۱-‏کر ۱۰:‏۱۱‏۔‏

اُنہوں نے دوڑ مکمل کی

۱۳.‏ (‏الف)‏ یہوواہ خدا نے نوح کو کیا کرنے کا حکم دیا؟‏ (‏ب)‏ نوح کس وجہ سے خدا کے حکموں پر عمل کر پائے؟‏

۱۳ پولس رسول نے خدا کے جن خادموں کا ذکر کِیا،‏ وہ ہمت کیوں نہیں ہارے اور اپنی دوڑ مکمل کیوں کر پائے؟‏ غور کریں کہ پولس رسول نے نوح کے بارے میں کیا کہا۔‏ ‏(‏عبرانیوں ۱۱:‏۷ کو پڑھیں۔‏)‏ خدا ’‏زمین پر پانی کا طوفان لانے والا تھا تاکہ ہر بشر کو دُنیا سے ہلاک کر ڈالے۔‏‘‏ (‏پید ۶:‏۱۷‏)‏ یہ ایک ایسی چیز تھی ’‏جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھی‘‏ یعنی جو پہلے کبھی واقع نہیں ہوئی تھی۔‏ نوح نے کبھی پہلے طوفان نہیں دیکھا تھا۔‏ اِس کے باوجود اُنہوں نے خدا کی بات پر شک نہیں کِیا۔‏ اُن کا ایمان مضبوط تھا۔‏ اِس لئے اُن کو پکا یقین تھا کہ یہوواہ خدا جو کچھ کہتا ہے،‏ اُسے ضرور پورا کرتا ہے۔‏ نوح نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ”‏یہوواہ خدا نے مجھے بہت ہی مشکل کام کرنے کو کہا ہے،‏ اِسے کرنا میرے بس کی بات نہیں۔‏“‏ بائبل میں لکھا ہے کہ جیسا خدا نے نوح کو حکم دیا،‏ اُنہوں نے ”‏ویسا ہی عمل کِیا۔‏“‏ (‏پید ۶:‏۲۲‏)‏ ذرا اُن تمام کاموں کے بارے میں سوچیں جو نوح کو کرنے تھے۔‏ اُن کو کشتی بنانی تھی،‏ جانوروں کو جمع کرنا تھا،‏ ڈھیر سارا اناج جمع کرنا تھا،‏ لوگوں کو خدا کے آنے والے عذاب سے آگاہ کرنا تھا اور اپنے گھروالوں کی مدد کرنی تھی تاکہ اُن کا ایمان مضبوط رہے۔‏ بیشک نوح کے لئے خدا کے حکم پر عمل کرنا آسان نہیں تھا۔‏ اِس کے باوجود اُنہوں نے ”‏ویسا ہی عمل کِیا۔‏“‏ نوح نے ثابت کِیا کہ وہ مضبوط ایمان کے مالک ہیں۔‏ اِس لئے خدا نے اُن کو اور اُن کے گھروالوں کو طوفان سے بچا لیا اور اُن کو بہت سی برکتیں دیں۔‏

۱۴.‏ (‏الف)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ابرہام اور سارہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے؟‏ (‏ب)‏ ہم ابرہام اور سارہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۴ پولس رسول نے ’‏گواہوں کے بڑے بادل‘‏ کے سلسلے میں ابرہام اور سارہ کی مثال بھی دی۔‏ ابرہام اور سارہ اُور کے شہر میں ایک آرام‌دہ زندگی گزار رہے تھے۔‏ لیکن یہوواہ خدا کے کہنے پر اُنہوں نے اُور کا شہر چھوڑ دیا۔‏ اُنہیں نہیں پتہ تھا کہ آگے کو اُن کی زندگی کیسی ہوگی۔‏ لیکن وہ یہوواہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔‏ اُنہوں نے مشکل صورتحال میں بھی اُس کا کہنا مانا۔‏ ابرہام،‏ یہوواہ خدا کے لئے بڑی سے بڑی قربانیاں دینے کو تیار تھے اِس لئے اُن کو بائبل میں ’‏اُن سب کا باپ ٹھہرایا گیا ہے جو ایمان لاتے ہیں۔‏‘‏ (‏روم ۴:‏۱۱‏)‏ یہودیہ اور یروشلیم کے مسیحی ابرہام اور سارہ کی زندگی سے اچھی طرح واقف تھے۔‏ اِس لئے پولس رسول نے اُن کی زندگی کے چند ہی واقعات کا ذکر کِیا۔‏ اِن چند ہی واقعات سے ظاہر ہوا کہ ابرہام اور سارہ دونوں کتنے مضبوط ایمان کے مالک تھے۔‏ پولس رسول نے اُن کے بارے میں کہا:‏ ”‏یہ سب ایمان کی حالت میں مرے اور وعدہ کی ہوئی چیزیں نہ پائیں مگر دُور ہی سے اُنہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور اقرار کِیا کہ ہم زمین پر پردیسی اور مسافر ہیں۔‏“‏ (‏عبر ۱۱:‏۱۳‏)‏ چونکہ ابرہام اور سارہ خدا پر ایمان رکھتے تھے اور اُس کے دوست تھے اِس لئے وہ ہمت نہیں ہارے اور اپنی دوڑ مکمل کر پائے۔‏

۱۵.‏ موسیٰ نے دولت اور شہرت کو خیرباد کیوں کہہ دیا؟‏

۱۵ موسیٰ بھی ’‏گواہوں کے بڑے بادل‘‏ میں شامل تھے۔‏ اُن کے ہاں دولت کی ریل‌پیل تھی۔‏ لیکن اُنہوں نے دولت اور شہرت کو خیرباد کہہ دیا اور ”‏خدا کی اُمت کے ساتھ بدسلوکی برداشت کرنا زیادہ پسند کِیا۔‏“‏ موسیٰ نے یہ سب کچھ کیوں کِیا؟‏ پولس رسول نے بتایا کہ ”‏[‏موسیٰ]‏ کی نگاہ اَجر پانے پر تھی۔‏ ‏.‏ .‏ .‏ وہ اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابت‌قدم رہا۔‏“‏ ‏(‏عبرانیوں ۱۱:‏۲۴-‏۲۷ کو پڑھیں۔‏)‏ موسیٰ ”‏گُناہ کا چند روزہ لطف اُٹھانے“‏ کی خاطر اپنا انعام کھونے کو تیار نہیں تھے۔‏ وہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔‏ وہ جانتے تھے کہ خدا اپنے وعدوں کو ہمیشہ پورا کرتا ہے۔‏ اِس لئے وہ مشکل سے مشکل صورتحال میں ثابت‌قدم رہے اور جُرأت سے کام لیتے رہے۔‏ موسیٰ کا ایمان اِتنا مضبوط تھا کہ وہ بنی‌اسرائیل کو مصر سے نکالنے اور کنعان کے ملک میں پہنچانے کے لئے اَن‌تھک محنت کر پائے۔‏

۱۶.‏ جب یہوواہ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ وہ کنعان کے ملک میں نہیں جا سکیں گے تو موسیٰ نے کیا کِیا؟‏

۱۶ خدا نے ابرہام سے اور موسیٰ سے جو وعدہ کِیا تھا،‏ وہ اُن کی زندگی میں پورا نہیں ہوا۔‏ جب بنی‌اسرائیل کنعان کے ملک میں داخل ہونے ہی والے تھے تو یہوواہ خدا نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏تُو اُس مُلک کو اپنے آگے دیکھ لے گا لیکن تُو وہاں اُس مُلک میں جو مَیں بنی‌اسرائیل کو دیتا ہوں جانے نہ پائے گا۔‏“‏ اِس کی کیا وجہ تھی؟‏ دراصل موسیٰ اور ہارون بنی‌اسرائیل کی شکایتوں سے اِتنے تنگ آ گئے تھے کہ اُنہوں نے ”‏مرؔیبہ کے چشمہ پر .‏ .‏ .‏ بنی‌اسرائیل کے درمیان [‏خدا کی]‏ تقدیس نہ کی۔‏“‏ (‏است ۳۲:‏۵۱،‏ ۵۲‏)‏ یہوواہ خدا کی اِس بات کو سُن کر کیا موسیٰ کی ہمت ٹوٹ گئی؟‏ کیا اُنہوں نے سوچا کہ ”‏یہ تو سراسر بےانصافی ہے؟‏“‏ جی‌نہیں۔‏ موسیٰ نے بنی‌اسرائیل کو برکت دی اور کہا:‏ ”‏مبارک ہے تُو اَے اؔسرائیل!‏ تُو [‏یہوواہ]‏ کی بچائی ہوئی قوم ہے سو کون تیری مانند ہے؟‏ وہی تیری مدد کی سپر اور تیرے جاہ‌وجلال کی تلوار ہے۔‏“‏—‏است ۳۳:‏۲۹‏۔‏

گواہوں کے بڑے بادل سے سیکھیں

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏الف)‏ ہم اُن لوگوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں جو ’‏گواہوں کے بڑے بادل‘‏ میں شامل ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم اگلے مضمون میں کس موضوع پر بات کریں گے؟‏

۱۷ ہم نے کچھ ایسے لوگوں کی زندگی پر غور کِیا ہے جو ’‏گواہوں کے بڑے بادل‘‏ میں شامل ہیں۔‏ ہم نے سیکھا ہے کہ ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو مکمل کرنے کے لئے ہمیں خدا پر مضبوط ایمان رکھنا ہوگا اور اِس بات پر بھروسا کرنا ہوگا کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے۔‏ (‏عبر ۱۱:‏۶‏)‏ ہماری زندگی کے ہر پہلو سے ظاہر ہونا چاہئے کہ ہم مضبوط ایمان کے مالک ہیں۔‏ خدا نے ہم سے ایک روشن مستقبل کا وعدہ کِیا ہے۔‏ ہمیں پکا یقین ہے کہ وہ اپنے اِس وعدے کو پورا کرے گا کیونکہ ہم ”‏اندیکھے کو گویا دیکھ“‏ سکتے ہیں۔‏ اِس لئے ہم ثابت‌قدم رہیں گے اور ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو مکمل کریں گے۔‏—‏۲-‏کر ۵:‏۷‏۔‏

۱۸ ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو دوڑنا مشکل ہوتا ہے۔‏ لیکن ہمت نہ ہاریں،‏ ہم اِس دوڑ کو مکمل کر سکتے ہیں۔‏ ہم انعام جیتنے کے لئے اَور کیا کر سکتے ہیں؟‏ اِس کے بارے میں ہم اگلے مضمون میں بات کریں گے۔‏

اِن سوالوں کے جواب دیں:‏

‏• پولس رسول نے قدیم زمانے کے گواہوں کی مثال کیوں دی؟‏

‏• جب ہم ’‏گواہوں کے بڑے بادل‘‏ کے ایمان پر غور کرتے ہیں تو ہم پر کیا اثر ہوتا ہے؟‏

‏• آپ نے نوح،‏ ابرہام،‏ سارہ اور موسیٰ کے ایمان پر غور کرنے سے کیا سیکھا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

ابرہام اور سارہ نے آرام‌دہ زندگی چھوڑ دی۔‏