یادوں کے ذخیرے سے
نیو زیلینڈ میں یہوواہ کے گواہ—صلحپسند یا عوام کے لیے خطرہ؟
21 اکتوبر 1940ء میں نیو زیلینڈ کی حکومت نے یہوواہ کے گواہوں کو ایک ایسی تنظیم قرار دیا جو حکومت کے خلاف ہے اور عوام کے لیے خطرہ ہے۔ اِس فیصلے کی وجہ سے یہوواہ کے گواہوں کو بہت مشکل وقت دیکھنا پڑا لیکن اُن کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر وہ گِرفتار ہونے کے خطرے کے باوجود عبادت کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوتے رہے۔
اِنہی میں سے ایک میری کلارک نامی یہوواہ کی گواہ تھیں۔ جب اُن کے شوہر اینڈی نے دیکھا کہ وہ ہر حال میں عبادت پر جانے کے لیے کتنی پُرعزم ہیں تو اُنہیں لگا کہ اُن کی بیوی کو ضرور گِرفتار کر لیا جائے گا۔ اِس لیے وہ اُن کے ساتھ اِجلاسوں پر جانے لگے حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنی بیوی سے کہا: ”اگر عبادت کے دوران پولیس تمہیں گِرفتار کرے گی تو اُسے مجھے بھی گِرفتار کرنا ہوگا۔“ اُس وقت کے بعد سے اینڈی، میری کے ساتھ ہر عبادت پر جانے لگے۔ بعد میں وہ بھی یہوواہ کے گواہ بن گئے۔ حالانکہ نیو زیلینڈ میں دوسری عالمی جنگ کے دوران گواہوں پر اذیت ڈھائی جا رہی تھی لیکن میری کلارک کی طرح بہت سے گواہ اِس عزم پر قائم رہے کہ وہ یہوواہ کے وفادار رہیں گے۔
وہ قید میں بھی جوش سے خدمت کرتے رہے
ایک دن ایک 78 سالہ یہوواہ کے گواہ جن کا نام جان مورے تھا، گھر گھر مُنادی کر رہے تھے۔ اِسی دوران پولیس نے اُنہیں گِرفتار کر لیا۔ عدالت نے جان مورے کو اِس بات پر قصوروار ٹھہرایا کہ مُنادی کا کام کرنے سے وہ حکومت کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ بہت سے اَور گواہوں کو بھی عدالت میں اپنے ایمان کا دِفاع کرنا پڑا جن میں سے کچھ کو جُرمانہ بھرنا پڑا اور کچھ کو تین مہینے قید کی سزا سنائی گئی۔ بعض کو تو ایک سے زیادہ بار قید میں ڈالا گیا۔
یہوواہ کے گواہوں نے بائبل کے مطابق تربیتیافتہ ضمیر کی وجہ سے فوج میں بھرتی ہونے سے اِنکار کر دیا۔ (یسعیاہ 2:4) اِس وجہ سے اُنہیں جنگ کے دوران سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریباً 80 گواہوں کو قیدی کیمپوں میں بند کر دیا گیا۔ حالانکہ اِن کیمپوں میں اُن کے ساتھ بڑی بدسلوکی کی گئی اور اُنہیں شدید سردی برداشت کرنی پڑی لیکن وہ پھر بھی خوشی سے یہوواہ کی عبادت کرتے رہے۔
قیدی کیمپوں میں بند گواہ بِنا وقت ضائع کیے اُن کاموں میں مصروف ہو گئے جو وہ پہلے اپنی کلیسیاؤں کے ساتھ مل کر کر رہے تھے۔ اُنہوں نے فوراً اِجلاسوں اور دوسرے قیدیوں کو گواہی دینے کا بندوبست کِیا۔ گواہوں کو تو کچھ کیمپوں میں ایک سپاہی کی نگرانی میں اِجتماعات منعقد کرنے کی بھی اِجازت دے دی گئی۔ کچھ قیدیوں نے اِن کیمپوں میں پاک کلام کی سچائیاں سیکھیں اور بپتسمہ لے لیا۔
میری اور اینڈی جن کا مضمون کے شروع میں ذکر ہوا، اُن کے سب سے چھوٹے بیٹے بروس کو قید میں ڈال دیا گیا۔ لیکن بروس نے اِس وقت کو ایک ایسا موقع خیال کِیا جب وہ خدا اور پاک کلام کی سچائیوں کے بارے میں اَور زیادہ سیکھ سکتے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”میرے لیے یہ ایسے تھا جیسے مَیں سکول جا رہا ہوں۔ کیمپوں میں مَیں تجربہکار بھائیوں سے بائبل کے موضوعات پر باتچیت کر سکتا تھا اور اُن سے بہت کچھ سیکھ سکتا تھا۔“
سن 1944ء میں حکومت نے کچھ یہوواہ کے گواہوں کو رِہا کرنے کا سوچا۔ لیکن فوجی افسروں کو اِس پر اِعتراض تھا۔ اُنہیں لگتا تھا کہ اگر گواہوں کو رِہا کر دیا گیا تو وہ دوسروں کو اپنے ایمان کے بارے میں بتانا بند نہیں کریں گے۔ اِس حوالے سے حکومت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا: ”سچ ہے کہ اِنہیں قید میں رکھنے سے ہم اِن کی کارگزاریوں کو کسی حد تک روک تو سکتے ہیں لیکن ہم اِن جنونیوں اور اِن کی سوچ کو کبھی نہیں بدل سکتے۔“
وہ عوام کے لیے خطرہ نہیں تھے
چونکہ یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگا دی گئی تھی اِس لیے کچھ لوگوں کے دل میں گواہوں کے بارے میں جاننے کا تجسّس پیدا ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کو احساس ہوا کہ یہوواہ کے گواہ عوام کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ اُنہوں نے دیکھا کہ گواہ صلحپسند مسیحی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں نیو زیلینڈ میں دوسری عالمی جنگ کے دوران گواہوں کی تعداد میں اِضافہ ہوا۔ 1939ء میں وہاں 320 گواہ تھے لیکن 1945ء میں اُن کی تعداد 536 ہو گئی۔
کچھ سرکاری افسر کُھلے ذہن کے مالک تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہوواہ کے گواہوں کے کام پر لگی پابندی سراسر نااِنصافی ہے۔ مثال کے طور پر جب ایک بھائی مُنادی کرنے کی وجہ سے عدالت میں پیش کِیا گیا تو ایک جج نے اُس پر لگائے گئے اِلزامات کو سننے کے بعد اُس کے مُقدمے کو خارج کر دیا۔ اُس جج نے کہا: ”جہاں تک میری سوچ اور قانون کی بات ہے تو کسی کو بائبل کو تقسیم کرنے کی وجہ سے مُجرم قرار دینا بالکل بےبنیاد ہے۔“
دوسری عالمی جنگ کے آخر پر یہوواہ کے گواہوں کے کام سے پابندی ہٹا دی گئی۔ اُس وقت گواہ پہلے سے بھی زیادہ پُرعزم ہو گئے کہ وہ لوگوں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں سکھائیں گے۔ 1945ء میں برانچ کی طرف سے نیو زیلینڈ کی تمام کلیسیاؤں کو ایک خط ملا جس میں یہ ہدایت دی گئی: ”سب لوگوں کے ساتھ سمجھداری، محبت اور مہربانی سے پیش آئیں۔ کسی کے ساتھ بحث میں نہ پڑیں۔ یاد رکھیں کہ جن لوگوں سے ہم مُنادی کے دوران ملتے ہیں، وہ دل سے اپنے عقیدوں کو مانتے ہیں اور اُنہیں یہ بہت عزیز ہیں۔ ... اِن میں سے بہت سے لوگ مالک کی ”بھیڑیں“ ہیں جنہیں ہمیں یہوواہ اور اُس کی بادشاہت کے بارے میں سکھانا ہے۔“
آج نیو زیلینڈ میں یہوواہ کے گواہ مقامی لوگوں کو اور سیاحوں کو بڑے جوش سے بائبل کا پیغام سنا رہے ہیں۔ ایک دن تو شہر تائورانگا میں 4 گواہوں نے صرف دو ہی گھنٹوں کے اندر اندر 67 سیاحوں سے بات کی جو 17 ملکوں سے آئے تھے۔
بِلاشُبہ آج نیو زیلینڈ کے لوگ یہوواہ کے گواہوں کو صلحپسند لوگوں کے طور پر جانتے ہیں جو پاک کلام کی سچائیوں کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ ہر سال وہاں سینکڑوں لوگ یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ لیتے ہیں۔ 2019ء میں 14 ہزار سے زیادہ یہوواہ کے گواہ خوشی سے خدا کی خدمت کر رہے تھے۔
سن 1940ء میں مُنادی کے کام پر پابندی لگنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد کچھ یہوواہ کے گواہ بائبل کا مطالعہ کرنے کے لیے جمع ہیں۔
نیو زیلینڈ کے شمالی جزیرے کے ایک قیدی کیمپ میں ایسے خانے جن میں ہر قیدی کو الگ الگ قید کِیا جاتا تھا۔
نیو زیلینڈ کے شمالی جزیرے پر واقع شہر ہوٹو میں ایک قیدی کیمپ
سن 1949ء میں کچھ یہوواہ کے گواہوں کی تصویر جو فوج میں بھرتی نہ ہونے کی وجہ سے قیدی کیمپ میں تھے۔