مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سولہواں باب

شیطان کا مقابلہ کریں

شیطان کا مقابلہ کریں

‏”‏ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تُم سے بھاگ جائے گا۔‏“‏—‏یعقوب ۴:‏۷‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ بپتسمے کے موقعے کن‌کن کے لئے خوشی کا باعث ہوتے ہیں؟‏

اگر آپ بڑے عرصے سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں تو آپ نے بےشمار بپتسمے کی تقریریں سنی ہوں گی۔‏ ایسے موقعوں پر جب بپتسمہ کے اُمیدوار کھڑے ہو جاتے ہیں تو تمام حاضرین میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ہال تالیوں سے گونج اُٹھتا ہے۔‏ اِن اشخاص کو دیکھ کر جنہوں نے یہوواہ خدا کی حمایت کرنے کا فیصلہ کِیا ہے یقیناً آپ کی آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں اور آپ کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔‏

۲ ہم تو سال میں صرف چند مرتبہ اپنے علاقے میں ہونے والے بپتسموں کو دیکھتے ہیں۔‏ لیکن فرشتوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ دُنیابھر میں ہونے والے لاتعداد بپتسموں کو دیکھ سکتے ہیں۔‏ ذرا سوچیں کہ ’‏آسمان پر کتنی خوشی‘‏ منائی جاتی ہے جب ہر ہفتے ہزاروں لوگ خدا کی تنظیم میں شامل ہو جاتے ہیں!‏ (‏لوقا ۱۵:‏۷،‏ ۱۰‏)‏ بِلاشُبہ یہوواہ خدا کے خادموں کی بڑھتی ہوئی تعداد فرشتوں کے لئے شادمانی کا باعث ہے۔‏—‏حجی ۲:‏۷‏۔‏

‏’‏گرجنے والا شیرببر‘‏

۳.‏ شیطان بڑے غصے میں کیوں ہے،‏ اور وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟‏

۳ البتہ،‏ ایسی بھی روحانی ہستیاں ہیں جو اِن بپتسموں کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو جاتی ہیں۔‏ جب شیطان اور اُس کی حمایت کرنے والے بُرے فرشتے دیکھتے ہیں کہ ہزاروں لوگ اِس بگڑی ہوئی دُنیا سے ناطہ توڑ رہے ہیں تو وہ بہت غصہ ہوتے ہیں۔‏ شیطان نے تو دعویٰ کِیا تھا کہ کوئی بھی انسان محبت کی بِنا پر یہوواہ خدا کی خدمت نہیں کرے گا اور ہر انسان آزمائش کی صورت میں خدا سے مُنہ پھیر لے گا۔‏ (‏ایوب ۲:‏۴،‏ ۵‏)‏ جب بھی کوئی شخص خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف کرتا ہے،‏ شیطان کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوتا ہے۔‏ شیطان کے لئے یہ ایسا ہے گویا ہر ہفتے اُس کے مُنہ پر ہزاروں طمانچے مارے جا رہے ہوں۔‏ اِسی وجہ سے وہ ”‏گرجنے والے شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ یہ ”‏شیرببر“‏ ہمیں روحانی لحاظ سے پھاڑ کھانا چاہتا ہے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ وہ ہمیں یہوواہ خدا سے دُور کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔‏—‏زبور ۷:‏۱،‏ ۲؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۲‏۔‏

جب بھی کوئی شخص خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف کرکے بپتسمہ لیتا ہے،‏ شیطان جھوٹا ثابت ہوتا ہے

۴،‏ ۵.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا نے شیطان کے اختیار پر کونسی پابندیاں لگائی ہیں؟‏ (‏ب)‏ مسیحی کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

۴ حالانکہ ہمیں ایک خطرناک دُشمن کا سامنا ہے لیکن ہم خوف‌زدہ نہیں ہیں۔‏ یہوواہ خدا نے اُس ‏”‏گرجنے والے شیرببر“‏ کے اختیار پر دو پابندیاں لگائی ہیں۔‏ ایک پابندی یہ ہے کہ شیطان خدا کے تمام خادموں کو گمراہ کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟‏ یہوواہ خدا نے پیشینگوئی کی کہ سچے مسیحیوں کی ”‏بڑی بِھیڑ“‏ ”‏بڑی مصیبت“‏ میں سے بچ نکلے گی۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۴‏)‏ اور خدا کی پیشینگوئیاں ہمیشہ پوری ہوتی ہیں۔‏

۵ دوسری پابندی یہ ہے کہ جب تک ایک مسیحی خدا کی قربت میں رہتا ہے،‏ شیطان اُس پر غالب نہیں آ سکے گا۔‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟‏ خدا کے نبی عزریاہ نے آسا بادشاہ سے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ تمہارے ساتھ ہے جب تک تُم اُس کے ساتھ ہو۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۵:‏۲؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳‏)‏ بائبل میں بہت سی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان خدا کے اُن خادموں پر غالب نہیں آ سکا جو خدا کے نزدیک رہے تھے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۴-‏۴۰‏)‏ ہم خدا کے کلام کی اِس سچائی پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ ”‏ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تُم سے بھاگ جائے گا۔‏“‏—‏یعقوب ۴:‏۷‏۔‏

‏’‏شرارت کی روحانی فوجوں سے کشتی‘‏

۶.‏ شیطان ہمیں خدا سے دُور کرنے کے لئے کونسے طریقے آزماتا ہے؟‏

۶ شیطان یہوواہ خدا کے خادموں کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا۔‏ لیکن اگر ہم چوکس نہیں رہتے ہیں تو ہم انفرادی طور پر اُس کا شکار بن سکتے ہیں۔‏ شیطان جانتا ہے کہ اگر وہ ہمیں یہوواہ خدا سے دُور کرنے میں کامیاب ہو جائے گا تو وہ ہم پر غالب آ سکے گا۔‏ ایسا کرنے کے لئے وہ تین طریقے آزماتا ہے۔‏ وہ ہم پر شدید حملے کرتا ہے،‏ ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ کشتی لڑتا ہے اور ہمیں اپنے پھندوں میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ آئیں اِن تین طریقوں پر غور کریں۔‏

۷.‏ شیطان خدا کے خادموں کے خلاف حملوں کی شدت میں اضافہ کیوں کر رہا ہے؟‏

۷ شدید حملے۔‏ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ یہ الفاظ سچے مسیحیوں کو آگاہ کرنے کے لئے لکھے گئے ہیں۔‏ شیطان نے پوری دُنیا کو اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔‏ لہٰذا وہ خاص طور پر اُن لوگوں پر توجہ دے رہا ہے جو ابھی تک اُس کے ہاتھ نہیں آئے ہیں۔‏ اِس لئے اُس نے خدا کے خادموں کے خلاف اپنی کارروائی تیز کر دی ہے۔‏ ‏(‏میکاہ ۴:‏۱؛‏ یوحنا ۱۵:‏۱۹؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۱۲،‏ ۱۷‏)‏ وہ بڑے قہر میں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس کا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏ اِس لئے وہ سچے مسیحیوں پر آزمائشوں کی بوچھاڑ کر رہا ہے۔‏ ہمارے زمانے میں وہ حملوں کی شدت میں اضافہ کر رہا ہے۔‏ لہٰذا ہمیں ’‏زمانے کو سمجھنے‘‏ کی ضرورت ہے تاکہ ہم جان جائیں کہ شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے ”‏کیا کرنا مناسب ہے۔‏“‏—‏۱-‏تواریخ ۱۲:‏۳۲‏۔‏

۸.‏ پولس رسول نے افسیوں ۶:‏۱۲ میں لفظ ”‏کشتی“‏ کیوں استعمال کِیا؟‏

۸ کُشتی۔‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو یوں خبردار کِیا:‏ ’‏ہمیں شرارت کی اُن روحانی فوجوں سے کشتی کرنا ہے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔‏‘‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۲‏)‏ اِس آیت میں پولس رسول نے لفظ ”‏کشتی“‏ کیوں استعمال کِیا؟‏ کیونکہ کشتی میں دو لوگ آمنےسامنے ہو کر پنجہ‌آزمائی کرتے ہیں۔‏ اِس طرح پولس رسول نے ظاہر کِیا کہ ہم میں سے ہر ایک کو شیطان اور اُس کے بُرے فرشتوں یعنی شیاطین کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم ایک ایسے مُلک میں رہ رہے ہیں جہاں زیادہ‌تر لوگ شیاطین یا جنّات کے وجود پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔‏ لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جس لمحے ایک شخص اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کرتا ہے،‏ وہ اکھاڑے میں اُتر آتا ہے اور شیطان مختلف داؤ لگا کر اُسے زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ اِسی وجہ سے پولس رسول نے تین بار افسس کے مسیحیوں کو ’‏قائم رہنے‘‏ کی تاکید کی۔‏—‏افسیوں ۶:‏۱۱،‏ ۱۳،‏ ۱۶‏۔‏

۹.‏ (‏ا)‏ شیطان اور اُس کے بُرے فرشتے مختلف قسم کے پھندے کیوں استعمال کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ شیطان ہماری سوچ کو بگاڑنے کی کوشش کیوں کرتا ہے اور ہم اُس کے جال میں پھنسنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ (‏ صفحہ ۱۹۲ اور ۱۹۳ پر بکس کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ج)‏ اب ہم شیطان کے کس پھندے پر غور کریں گے؟‏

۹ پھندے۔‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو تاکید کی کہ وہ شیطان کے ”‏منصوبوں کے مقابلہ میں قائم“‏ رہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۱‏)‏ غور کریں کہ اُس نے لفظ ”‏منصوبہ“‏ کو جمع میں استعمال کِیا ہے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ وہ ہمیں پھنسانے کے لئے طرح‌طرح کے پھندے استعمال کرتا ہے۔‏ اُس کا یہ طریقہ اکثر کامیاب رہا ہے۔‏ کئی مسیحی جو ایک قسم کی آزمائش کا سامنا کرتے وقت قائم رہے ہیں،‏ وہ کسی دوسری آزمائش کی وجہ سے راہِ‌راست سے ہٹ گئے ہیں۔‏ شیطان اور اُس کے بُرے فرشتے ہماری روش پر نظر رکھتے ہیں تاکہ وہ ہماری کمزوریوں کی کھوج لگا سکیں۔‏ پھر وہ اِن کمزوریوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم پر آزمائش لاتے ہیں۔‏ البتہ ہم شیطان کے پھندوں سے واقف ہیں کیونکہ بائبل میں ہمیں اِن سے آگاہ کِیا گیا ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۱‏)‏ اِس کتاب میں ہم شیطان کے بعض پھندوں پر بات کر چکے ہیں،‏ مثلاً مال‌ودولت کا لالچ،‏ بُری صحبتیں اور حرامکاری،‏ وغیرہ۔‏ اب ہم اُس کے ایک اَور پھندے پر غور کریں گے یعنی ایسے کاموں پر جن کا تعلق شیاطین سے ہے۔‏

یہوواہ خدا سے غداری نہ کریں

۱۰.‏ (‏ا)‏ کونسے کام شیاطین سے تعلق رکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا ایسے کاموں کو کیسا خیال کرتا ہے اور آپ اِن کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏

۱۰ شیاطین یا جنّات دراصل وہ فرشتے ہیں جو شیطان کا ساتھ دیتے ہیں۔‏ بہت سے لوگ ایسے کام کرتے ہیں جو شیاطین سے تعلق رکھتے ہیں،‏ مثلاً وہ فال نکالتے ہیں،‏ حال کھیلتے ہیں،‏ تعویز گنڈے استعمال کرتے ہیں،‏ جادوٹونا کرتے ہیں،‏ وغیرہ۔‏ ایسے کام یہوواہ خدا کی نظروں میں ”‏مکروہ“‏ ہیں۔‏ (‏استثنا ۱۸:‏۱۰-‏۱۲؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۸‏)‏ چونکہ سچے مسیحی ”‏بدی سے نفرت“‏ رکھتے ہیں اِس لئے وہ شیاطین کے ساتھ کسی قسم کا تعلق قائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۹‏)‏ ایسا کرنا ہمارے آسمانی باپ یہوواہ سے غداری کرنے کے برابر ہے۔‏

۱۱.‏ اگر کوئی مسیحی ایسے کام کرے جن کا تعلق شیاطین سے ہے تو شیطان ایک بڑا معرکہ کیوں جیت لیتا ہے؟‏ تمثیل دے کر واضح کریں۔‏

۱۱ شیطان جانتا ہے کہ اگر مسیحی کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس کا تعلق شیاطین سے ہے تو دراصل وہ یہوواہ خدا سے غداری کرتے ہیں۔‏ اِس لئے وہ مسیحیوں کو اِن کاموں میں ملوث کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔‏ جب بھی وہ اِس میں کامیاب ہوتا ہے،‏ وہ بڑا معرکہ جیت لیتا ہے۔‏ ذرا اِس تمثیل پر غور کریں۔‏ اگر ایک فوجی اپنی پلٹن سے غداری کرکے دُشمن کے ساتھ جا ملے تو دُشمن کا کمانڈر بہت خوش ہوگا۔‏ شاید یہ کمانڈر اپنے مخالف کمانڈر کو ذلیل کرنے کے لئے اِس غداری کا چرچا کرے۔‏ اِسی طرح اگر ایک مسیحی کوئی ایسا کام کرے جس کا تعلق شیاطین سے ہے تو وہ یہوواہ خدا کو چھوڑ دیتا ہے اور خود کو شیطان کے اختیار میں کر دیتا ہے۔‏ ذرا سوچیں کہ شیطان کو اِس غدار کی وجہ سے کتنی خوشی ملے گی۔‏ وہ اُس کے ذریعے یہوواہ خدا کی بدنامی کرنے کی کوشش کرے گا۔‏ بِلاشُبہ کوئی مسیحی یہ نہیں چاہتا کہ اُس کی وجہ سے شیطان کی جیت ہو۔‏ ہم میں سے کوئی یہوواہ خدا سے غداری نہیں کرنا چاہتا ہے۔‏

‏”‏بدی کو نیکی“‏ خیال نہ کریں

۱۲.‏ شیطان ہمیں شیاطین کی مٹھی میں کرنے کے لئے کونسی چال استعمال کرتا ہے؟‏

۱۲ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں،‏ شیطان ہمیں ایسے کام کرنے پر اُکسانا چاہتا ہے جن کا تعلق شیاطین سے ہے۔‏ لیکن جب تک ہم ایسے کاموں سے نفرت کریں گے،‏ شیطان ہمیں اِس پھندے میں نہیں پھنسا سکتا۔‏ اِس لئے وہ ہماری سوچ میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ وہ مسیحیوں کو اُلجھانا چاہتا ہے تاکہ وہ ”‏بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی“‏ خیال کرنے لگیں۔‏ (‏یسعیاہ ۵:‏۲۰‏)‏ ایسا کرنے کے لئے وہ ایک آزمائی ہوئی چال استعمال کرتا ہے۔‏ وہ مسیحیوں کے دل میں شک کے بیج بونے کی کوشش کرتا ہے۔‏

۱۳.‏ شیطان نے ماضی میں خدا کے خادموں کے دل میں شک پیدا کرنے کی کوشش کیسے کی؟‏

۱۳ غور کریں کہ شیطان نے ماضی میں خدا کے خادموں کے دل میں شک پیدا کرنے کی کوشش کیسے کی۔‏ باغِ‌عدن میں اُس نے حوا سے پوچھا:‏ ”‏کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تُم نہ کھانا؟‏“‏ ایوب کے زمانے میں شیطان نے فرشتوں کے سامنے یہوواہ خدا سے کہا:‏ ”‏کیا اؔیوب یوں ہی خدا سے ڈرتا ہے؟‏“‏ اور جب یسوع مسیح زمین پر تھا تو شیطان نے اُسے یوں ورغلانے کی کوشش کی:‏ ”‏اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔‏“‏ تقریباً چھ ہفتے پہلے یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کے بارے میں کہا تھا کہ ”‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔‏“‏ ذرا سوچیں،‏ شیطان نے یہوواہ خدا کے اِن الفاظ پر شک ڈالنے کی جُرأت کی!‏—‏پیدایش ۳:‏۱؛‏ ایوب ۱:‏۹؛‏ متی ۳:‏۱۷؛‏ ۴:‏۳‏۔‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ شیطان ہمارے دل میں شیاطین سے تعلق رکھنے والے کاموں کے سلسلے میں کونسا شک پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ اب ہم کن دو معاملوں پر غور کریں گے؟‏

۱۴ آجکل شیطان ہمارے دل میں یہ شک پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا شیاطین سے تعلق رکھنے والے تمام کام واقعی بُرے ہیں؟‏ افسوس کی بات ہے کہ وہ بعض مسیحیوں کے دل میں یہ شک پیدا کرنے میں کامیاب رہا ہے۔‏ اِن مسیحیوں کا خیال ہے کہ شاید ایسے کام اتنے خطرناک نہیں ہیں جتنا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے۔‏ حوا کی طرح وہ بھی سوچنے لگے ہیں:‏ ”‏کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ یہ کام غلط ہیں؟‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳‏)‏ ہم ایسے مسیحیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہم خود شیطان کے اِس پھندے میں پھنسنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ اِن سوالوں کے جواب کے لئے آئیں ہم دو ایسے معاملوں پر غور کریں جن کے ذریعے شیطان نے بہت سے لوگوں کو شیاطین کی مٹھی میں کِیا ہے یعنی تفریح اور علاج۔‏

تفریح اور علاج کے معاملوں میں خبردار رہیں

۱۵.‏ (‏ا)‏ بہت سے ممالک میں جادوٹونے اور شیاطین سے رابطہ کرنے کو کیسا خیال کِیا جاتا ہے؟‏ (‏ب)‏ کچھ یہوواہ کے گواہ شیاطین سے تعلق رکھنے والے کاموں کے سلسلے میں کس غلط‌فہمی کا شکار ہو گئے ہیں؟‏

۱۵ بہت سے ممالک میں جادوٹونے اور شیاطین سے رابطہ کرنے کے مختلف طریقوں کو کھیل خیال کِیا جاتا ہے۔‏ ایسی باتوں کو ویڈیو گیمز،‏ فلموں،‏ کتابوں،‏ گانوں اور ٹی‌وی پروگراموں میں یوں پیش کِیا جاتا ہے جیسا کہ اِن میں کوئی ہرج نہیں۔‏ کئی فلموں اور کتابوں کی کہانی ہی جادوٹونے پر مبنی ہے۔‏ یہ فلمیں اور کتابیں اتنی مقبول ہیں کہ لوگوں نے اُن کے فینکلب قائم کر رکھے ہیں۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ شیطان کے اِس دھوکے کا شکار ہو گئے ہیں کہ شیاطین سے تعلق رکھنے والے کام خطرناک نہیں ہیں۔‏ کیا کچھ یہوواہ کے گواہ بھی اِس دھوکے کا شکار ہو گئے ہیں؟‏ جی‌ہاں۔‏ مثال کے طور پر ایک بھائی نے ایک ایسی فلم دیکھی جس کی کہانی جادوٹونے پر مبنی ہے لیکن اُس کے خیال میں ایسا کرنے میں کوئی ہرج نہیں تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں نے تو کوئی جادوٹونا نہیں کِیا،‏ بس فلم دیکھی ہے۔‏“‏ ایسی سوچ خطرناک کیوں ہے؟‏

۱۶.‏ جادوٹونے کے بارے میں فلمیں دیکھنا اور کتابیں پڑھنا خطرناک کیوں ہے؟‏

۱۶ یہ سچ ہے کہ جادوٹونا کرنے اور اِس کے بارے میں فلم دیکھنے میں فرق ہے۔‏ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسی فلم دیکھنا خطرے سے خالی ہے۔‏ خدا کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان اور اُس کے بُرے فرشتے انسانوں کے خیالات نہیں پڑھ سکتے ہیں۔‏ * لیکن جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں،‏ شیطان اور اُس کے بُرے فرشتے ہماری کمزوریوں کی کھوج لگانے کے لئے ہماری روش پر نظر رکھتے ہیں۔‏ لہٰذا جب ایک مسیحی بڑے شوق سے ایسی کتابیں پڑھتا یا فلمیں دیکھتا ہے جو جنِ‌بھوت،‏ آسیب اور جادوگروں،‏ وغیرہ کے بارے میں ہیں تو وہ شیاطین کو اپنی کمزوری سے آگاہ کرتا ہے۔‏ شیاطین اُس کی اِس کمزوری کا فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنی کارروائی تیز کر دیتے ہیں تاکہ وہ اُسے اپنی مٹھی میں کر لیں۔‏ افسوس کی بات ہے کہ فلموں،‏ کتابوں،‏ گانوں اور گیمز کے ذریعے کئی مسیحیوں میں جادوٹونے کے لئے تجسّس پیدا ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں اُنہوں نے خود بھی جادوٹونا کرنا شروع کر دیا۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۷‏۔‏

بیماری کی حالت میں یہوواہ خدا کا سہارا لیں

۱۷.‏ شیطان بیمار مسیحیوں کو کس پھندے میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے؟‏

۱۷ شیطان علاج کے معاملے میں بھی ہمیں شیاطین کے پھندے میں پھنسانا چاہتا ہے۔‏ وہ کیسے؟‏ فرض کریں کہ ایک مسیحی بیمار ہے اور وہ طرح‌طرح کے علاج کروا چکا ہے۔‏ لیکن اِن میں سے کوئی مؤثر نہیں رہا جس کی وجہ سے وہ سخت مایوسی کا شکار ہو گیا ہے۔‏ (‏مرقس ۵:‏۲۵،‏ ۲۶‏)‏ شیطان اور اُس کے بُرے فرشتے شاید اِس صورتحال کا فائدہ اُٹھائیں۔‏ وہ جانتے ہیں کہ خدا کے کلام میں ”‏بدکرداروں کی حمایت“‏ کرنے سے منع کِیا گیا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۳۱:‏۲‏)‏ اِس لئے وہ بیمار مسیحیوں کو ایسے علاج کروانے پر اُکساتے ہیں جو شیاطین کی قوت سے کئے جاتے ہیں۔‏ اگر مسیحی اِس پھندے میں پھنس کر ایسے علاج کروائیں تو وہ ”‏بدکرداروں کی حمایت“‏ کریں گے۔‏ یوں شیاطین اُن کو خدا سے دُور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‏

۱۸.‏ مسیحی کس طرح کے علاج اور معائنے کو رد کرتے ہیں؟‏

۱۸ یہوواہ خدا نے اُن اسرائیلیوں کی ملامت کی جو شیاطین کی قوت کا سہارا لیتے تھے۔‏ خدا نے اُن سے کہا:‏ ”‏جب تُم اپنے ہاتھ پھیلاؤ گے تو مَیں تُم سے آنکھ پھیر لوں گا۔‏ ہاں جب تُم دُعا پر دُعا کرو گے تو مَیں نہ سنوں گا۔‏“‏ * (‏یسعیاہ ۱:‏۱۳،‏ ۱۵‏)‏ بےشک مسیحی کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس کی وجہ سے خدا اُن کی دُعاؤں کو نہ سنے یا پھر اُن کو سہارا نہ دے۔‏ اور خاص طور پر جب کوئی مسیحی بیمار ہوتا ہے تو اُسے خدا کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ (‏زبور ۴۱:‏۳‏)‏ اگر آپ کو اِس بات کا شک ہے کہ کوئی معائنہ یا علاج شیاطین کی قوت سے کِیا جا رہا ہے تو اِسے رد کر دیں۔‏ * (‏متی ۶:‏۱۳‏)‏ اِس طرح آپ کو یہوواہ خدا کا سہارا میسر ہوگا۔‏—‏ صفحہ ۱۹۴ پر بکس ”‏کیا اِس کے پیچھے شیاطین کا ہاتھ ہے؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏

 

شیاطین کے بارے میں قصےکہانیاں نہ دہرائیں

۱۹.‏ (‏ا)‏ کئی ممالک میں لوگ شیطان کی قوت کے بارے میں کس دھوکے کا شکار ہیں؟‏ (‏ب)‏ سچے مسیحیوں کو کس قسم کے قصےکہانیاں نہیں دہرانے چاہئیں؟‏

۱۹ کچھ ممالک میں لوگ شیاطین سے تعلق رکھنے والے کاموں کو کھیل سمجھتے ہیں،‏ جبکہ دوسرے ممالک میں لوگ شیاطین کی وجہ سے طرح‌طرح کے وہم کا شکار ہیں۔‏ اِن ممالک میں لوگ اِس دھوکے کا شکار ہیں کہ شیطان کی قوت لامحدود ہے۔‏ وہ سوتے جاگتے شیاطین کے خوف میں رہتے ہیں۔‏ لوگ شیاطین کے قوی کاموں کے بارے میں قصےکہانیاں سناتے نہیں تھکتے اور مزے لےلے کر ایسی کہانیاں سنتے ہیں۔‏ کیا سچے مسیحیوں کو بھی ایسے قصے دہرانے چاہئیں؟‏ جی‌نہیں۔‏ اِس کی دو وجوہات ہیں۔‏

۲۰.‏ ہم انجانے میں شیطان کے جھوٹے دعوؤں کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں؟‏

۲۰ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ شیاطین کے بارے میں قصےکہانیاں سنانے سے ہم شیطان کے جھوٹے دعوؤں کو فروغ دیتے ہیں۔‏ یہ سچ ہے کہ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ شیطان قوی کام کرنے کے قابل ہے۔‏ لیکن اِس میں یہ آگاہی بھی دی گئی ہے کہ وہ ’‏ہر طرح کے دھوکے کے ساتھ جھوٹی قدرت اور نشان‘‏ بھی دکھاتا ہے۔‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ شیطان اوّل درجے کا دھوکہ‌باز ہے۔‏ اِس لئے جب لوگ جادوٹونے میں دلچسپی لیتے ہیں تو شیطان اُن کو یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ ایسے کام کر سکتا ہے جو دراصل اُس کی قدرت سے باہر ہیں۔‏ ایسے لوگوں کو شاید اِس بات کا یقین ہو کہ اُنہوں نے شیطان کے اِن کارناموں کو واقعی دیکھا ہے اور وہ دوسروں کو بھی یقین دلانا چاہتے ہیں کہ شیطان ایسے کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ یہ قصے بڑھاچڑھا کر دہرائے جاتے ہیں۔‏ اگر ایک مسیحی اِن قصےکہانیوں کو دہرائے گا تو اصل میں وہ ’‏جھوٹ کے باپ‘‏ شیطان کے دعوؤں کا چرچا کر رہا ہوگا۔‏—‏یوحنا ۸:‏۴۴؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۶‏۔‏

۲۱.‏ دوسروں کے ساتھ بات‌چیت کرتے وقت ہم کن معاملوں پر توجہ دلانا چاہتے ہیں؟‏

۲۱ شیاطین کے بارے میں قصےکہانیاں نہ دہرانے کی دوسری وجہ کیا ہے؟‏ بائبل میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہم ”‏ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوؔع کو تکتے رہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۲‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہماری توجہ شیطان پر نہیں بلکہ یسوع مسیح پر ہونی چاہئے۔‏ لہٰذا اگر ماضی میں ایک مسیحی کے ساتھ ایسے واقعے پیش آئے ہوں جن میں شیاطین کا ہاتھ تھا تو وہ اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کو متاثر کرنے کے لئے اِنہیں یہ قصے باربار نہیں سنائے گا۔‏ غور کریں کہ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو شیاطین کے بارے میں سنسنی‌خیز قصے نہیں سنائے حالانکہ وہ شیاطین کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا۔‏ اِس کی بجائے یسوع مسیح نے بادشاہت کی خوشخبری پر زور دیا‏۔‏ یسوع مسیح اور اُس کے رسولوں کی طرح ہم بھی ”‏خدا کے بڑےبڑے کاموں کا بیان“‏ کرنا چاہتے ہیں،‏ نہ کہ شیطان کے کاموں پر توجہ دلانا چاہتے ہیں۔‏—‏اعمال ۲:‏۱۱؛‏ لوقا ۸:‏۱؛‏ رومیوں ۱:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

۲۲.‏ ہماری کس روش سے ’‏آسمان پر خوشی‘‏ ہوگی؟‏

۲۲ ہم نے دیکھا ہے کہ شیطان ہمیں خدا سے دُور کرنے کے لئے مختلف پھندے استعمال کرتا ہے۔‏ اِن میں سے ایک وہ کام ہیں جو شیاطین سے تعلق رکھتے ہیں۔‏ لیکن اگر ہم بدی سے نفرت کریں گے اور نیکی سے لپٹے رہیں گے تو شیطان ہمیں اِس پھندے میں پھنسانے کا موقع ہی نہیں پائے گا۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۲۷‏)‏ ذرا سوچیں کہ جب ہم ’‏ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہتے ہیں‘‏ تو ’‏آسمان پر کتنی خوشی‘‏ ہوتی ہے۔‏ اِس لئے آئیں ہم ڈٹ کر شیطان کا مقابلہ کرنے کا عزم کریں۔‏—‏افسیوں ۶:‏۱۱‏۔‏

^ پیراگراف 16 شیطان کو ”‏مخالف،‏“‏ ”‏جھوٹے الزام لگانے والا،‏“‏ ”‏گمراہ کرنے والا،‏“‏ ”‏آزمانے والا،‏“‏ اور ”‏جھوٹ کا باپ“‏ جیسے لقب دئے گئے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا کے بارے کہا گیا ہے کہ وہ ’‏دلوں کو پرکھتا ہے۔‏‘‏ اور یسوع مسیح کو ”‏گردوں اور دلوں کا جانچنے والا“‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏امثال ۱۷:‏۳؛‏ مکاشفہ ۲:‏۲۳‏)‏ اِس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ صرف یہوواہ خدا اور یسوع مسیح ہمارے خیالات کو پڑھنے کی لیاقت رکھتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 18 یسعیاہ ۱:‏۱۳ میں لفظ ”‏بدکرداری“‏ ایسے کاموں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جو شیاطین کی قوت سے کئے جاتے ہیں۔‏