مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر ۲۱

کیا ہمیں شیخی مارنی چاہئے؟‏

کیا ہمیں شیخی مارنی چاہئے؟‏

کیا آپ کو پتہ ہے کہ شیخی مارنے کا کیا مطلب ہے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ آئیں،‏ مَیں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔‏ کیا آپ نے کبھی کوئی ایسا کام کرنے کی کوشش کی ہے جو آپ کو نہیں آتا؟‏ شاید آپ نے سائیکل چلانے کی کوشش کی ہو یا رسی کودنے کی کوشش کی ہو۔‏ آپ کو دیکھ کر شاید کسی نے کہا ہو کہ ”‏مجھے دیکھو،‏ مَیں تُم سے بہتر سائیکل چلاتا ہوں۔‏“‏ یا شاید کسی نے کہا ہو کہ ”‏تمہیں تو رسی کودنا بالکل نہیں آتی۔‏ مجھے دیکھو،‏ مَیں کیسے کودتی ہوں۔‏“‏ کیا کسی نے آپ سے ایسی باتیں کہہ کر آپ کا مذاق اُڑایا ہے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ جب کوئی ایسی باتیں کہتا ہے تو وہ شیخی مارتا ہے۔‏

جب دوسرے بچے شیخی مارتے ہیں تو آپ کو کیسا لگتا ہے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ ظاہر ہے کہ آپ کو اچھا نہیں لگتا۔‏ تو پھر اگر آپ شیخی ماریں گے تو دوسروں کو کیسا لگے گا؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ کیا ہمیں کسی سے کہنا چاہئے کہ ”‏مَیں تُم سے بہتر ہوں“‏؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ کیا یہوواہ خدا ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو شیخی مارتے ہیں؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏

عظیم اُستاد یسوع مسیح ایسے لوگوں کو جانتے تھے جو خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے تھے۔‏ یہ لوگ شیخی مارتے تھے۔‏ وہ خود پر بڑا فخر کرتے تھے اور دوسروں کو کم‌تر خیال کرتے تھے۔‏ ایک دن یسوع مسیح نے اِن لوگوں کو سمجھایا کہ اُن کی سوچ غلط ہے۔‏ اِس سلسلے میں اُنہوں نے ایک کہانی سنائی۔‏ آئیں،‏ مَیں آپ کو یہ کہانی سناؤں۔‏

یہ کہانی ایک فریسی اور ایک محصول لینے والے کے بارے میں تھی۔‏ فریسی،‏ یہودیوں کے مذہبی اُستاد تھے۔‏ فریسیوں کا خیال تھا کہ وہ دوسرے لوگوں سے زیادہ نیک اور دین‌دار ہیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏ایک فریسی خدا سے دُعا کرنے کے لئے ہیکل میں گیا۔‏“‏

خدا فریسی سے خوش کیوں نہیں تھا؟‏ لیکن وہ محصول لینے والے سے خوش کیوں تھا؟‏

پھر یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏ایک محصول لینے والا بھی خدا سے دُعا کرنے کے لئے ہیکل میں گیا۔‏“‏ محصول لینے والے ٹیکس جمع کرتے تھے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے لوگوں سے پیسے لیتے تھے۔‏ بہت سے محصول لینے والے امیر بننے کے لئے لوگوں سے زیادہ پیسے لیتے تھے۔‏ اُن کی بےایمانی کی وجہ سے لوگ اُن کو پسند نہیں کرتے تھے۔‏

فریسی نے ہیکل میں یوں دُعا کی:‏ ”‏اَے خدا!‏ مَیں تیرا شکر کرتا ہوں کہ مَیں دوسرے لوگوں کی طرح غلط کام نہیں کرتا۔‏ مَیں بےایمانی نہیں کرتا۔‏ مَیں اِس محصول لینے والے کی طرح نہیں ہوں۔‏ مَیں بڑا نیک آدمی ہوں۔‏ مَیں تیری خاطر ہفتے میں دو بار روزہ رکھتا ہوں۔‏ مَیں ہر مہینے اپنی آمدنی کا دسواں حصہ ہیکل کے لئے عطیہ کے طور پر دیتا ہوں۔‏“‏ فریسی کا خیال تھا کہ وہ دوسروں سے بہتر ہے۔‏ اُس نے خدا کو بھی بتایا کہ وہ بہت ہی نیک انسان ہے۔‏ آپ کے خیال میں کیا فریسی کو اپنے بارے میں ایسا سوچنا چاہئے تھا؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏

محصول لینے والا اِس فریسی کی طرح نہیں تھا۔‏ اُس نے خدا سے یہ نہیں کہا کہ ”‏مَیں بڑا نیک انسان ہوں۔‏“‏ وہ اپنی غلطیوں پر اِتنا شرمندہ تھا کہ وہ اپنی چھاتی پیٹ رہا تھا۔‏ اُس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ آنکھیں اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھے۔‏ اُس نے سر جھکا کر خدا سے یوں دُعا کی:‏ ”‏اَے خدا!‏ مَیں گُناہ‌گار ہوں۔‏ مجھ پر رحم کر۔‏“‏

آپ کے خیال میں خدا اِن دونوں آدمیوں میں سے کس سے خوش تھا؟‏ کیا وہ فریسی سے خوش تھا جس کو خود پر بڑا فخر تھا؟‏ یا کیا وہ محصول لینے والے سے خوش تھا جو اپنی غلطیوں پر شرمندہ تھا؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏

یسوع مسیح نے کہا کہ خدا محصول لینے والے سے خوش تھا۔‏ یسوع مسیح نے اِس کی وجہ یوں بتائی:‏ ”‏جو خود کو دوسروں سے بڑا خیال کرتا ہے،‏ اُس کو سب سے چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو دوسروں سے چھوٹا خیال کرتا ہے،‏ اُس کو بڑا کِیا جائے گا۔‏“‏—‏لوقا ۱۸:‏۹-‏۱۴‏۔‏

آپ کے خیال میں یسوع مسیح اِس کہانی کے ذریعے لوگوں کو کیا سکھا رہے تھے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ وہ سکھا رہے تھے کہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا غلط ہے۔‏ شاید ہم زبان سے نہ کہیں کہ ”‏مَیں دوسروں سے بہتر ہوں۔‏“‏ لیکن شاید ہم لوگوں سے ایسا سلوک کریں جس سے ظاہر ہو کہ ہم خود کو اُن سے بہتر سمجھتے ہیں۔‏ کیا آپ نے کبھی دوسروں سے ایسا سلوک کِیا ہے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ پطرس رسول نے ایک بار شیخی ماری تھی۔‏ آئیں،‏ مَیں آپ کو اِس کے بارے میں بتاؤں۔‏

ایک دن یسوع مسیح نے اپنے رسولوں کو بتایا کہ ”‏جب مجھے گرفتار کِیا جائے گا تو تُم سب مجھے چھوڑ کر بھاگ جاؤ گے۔‏“‏ یہ سُن کر پطرس رسول نے شیخی ماری کہ ”‏چاہے سب آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں لیکن مَیں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔‏“‏ پطرس رسول کو خود پر بڑا فخر تھا۔‏ لیکن جب یسوع مسیح کو گرفتار کِیا گیا تو پطرس رسول بھی اُن کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔‏ لیکن بعد میں اُن کو افسوس ہوا اور اُنہوں نے پکا ارادہ کِیا کہ وہ آئندہ یسوع مسیح کے وفادار رہیں گے۔‏ اِس کے بارے میں ہم باب نمبر ۳۰ میں پڑھیں گے۔‏—‏متی ۲۶:‏۳۱-‏۳۳‏۔‏

کبھی‌کبھی ہم بھی پطرس رسول کی طرح شیخی مارتے ہیں۔‏ آئیں،‏ مَیں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔‏ فرض کریں کہ آپ کے اُستاد کلاس میں بچوں سے سوال پوچھ رہے ہیں۔‏ شاید آپ فوراً اِن سوالوں کے جواب دے سکیں جبکہ دوسرے بچے اِن سوالوں کے جواب نہیں جانتے۔‏ جب آپ کو سارے سوالوں کے جواب آتے ہیں تو آپ خوش ہوتے ہیں،‏ ہے نا؟‏ لیکن کیا آپ کو یہ سوچنا چاہئے کہ ”‏مَیں تو بہت لائق ہوں جبکہ اِن سب کو کچھ بھی نہیں آتا“‏؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ کئی لوگ اپنی اہمیت بڑھانے کے لئے دوسروں کو نیچا دکھاتے ہیں۔‏ کیا ہمیں ایسا کرنا چاہئے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏

فریسی نے بھی شیخی ماری تھی کہ ”‏مَیں تو محصول لینے والے سے زیادہ اچھا انسان ہوں۔‏“‏ لیکن عظیم اُستاد یسوع مسیح نے کہا کہ ایسا سوچنا غلط ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ کئی لوگ ایک کام دوسروں سے بہتر کر سکتے ہیں۔‏ لیکن اِس کا مطلب نہیں کہ وہ دوسرے لوگوں سے زیادہ اچھے انسان ہیں۔‏

اگر آپ دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں تو کیا اِس کا مطلب ہے کہ آپ زیادہ اچھے انسان ہیں؟‏

اگر ہم دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں تو کیا ہمیں شیخی مارنی چاہئے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ ذرا سوچیں کہ ہمیں دماغ کس نے دیا ہے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ یہوواہ خدا نے ہمیں دماغ دیا ہے۔‏ جو کچھ بھی ہم جانتے ہیں،‏ ہم نے کسی سے سیکھا ہے۔‏ شاید ہم نے کچھ باتیں کسی کتاب میں پڑھی ہوں یا پھر شاید کسی نے ہمیں اِن کے بارے میں بتایا ہو۔‏ اور اگر ہم نے ایک بات خود سے سیکھ لی ہے تو کیا ہمیں شیخی مارنی چاہئے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ یاد رکھیں کہ خدا ہی نے ہمیں دماغ دیا ہے اور ہمیں سوچنےسمجھنے کے قابل بنایا ہے۔‏

شاید آپ کسی بچے کو جانتے ہیں جسے ایک کام سیکھنا مشکل لگ رہا ہے۔‏ آپ کو اُس کا مذاق اُڑانے کی بجائے اُس کی ہمت بڑھانی چاہئے۔‏ آپ اُس کی تعریف کر سکتے ہیں کہ وہ اِس کام کو سیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔‏ شاید آپ اُس کی مدد بھی کر سکتے ہیں تاکہ وہ یہ کام اچھی طرح سے سیکھ جائے۔‏ آپ ضرور چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کے ساتھ بھی ایسا سلوک کریں،‏ ہے نا؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏

اگر ہم دوسروں سے زیادہ طاقت‌ور ہیں تو ہمیں شیخی کیوں نہیں مارنی چاہئے؟‏

کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ طاقت‌ور ہوتے ہیں۔‏ اگر آپ اپنی بہن یا اپنے بھائی سے زیادہ طاقت‌ور ہیں تو کیا آپ کو شیخی مارنی چاہئے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ ہمیں شیخی نہیں مارنی چاہئے۔‏ ذرا سوچیں کہ ہمیں طاقت کیسے ملتی ہے؟‏ ہمیں کھانا کھانے سے طاقت ملتی ہے۔‏ لیکن کون سورج چمکاتا ہے اور بارش برساتا ہے تاکہ ہمیں کھانا ملے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ خدا ایسا کرتا ہے۔‏ اِس لئے اگر ہم طاقت‌ور ہیں تو ہمیں شیخی نہیں مارنی چاہئے بلکہ خدا کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔‏—‏اعمال ۱۴:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

جب کوئی شخص شیخی مارتا ہے یا خود پر بڑا فخر کرتا ہے تو ہمیں اچھا نہیں لگتا،‏ ہے نا؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ اِس لئے ہمیں یسوع مسیح کی اِس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ ”‏جیسا تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تُم بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی کرو۔‏“‏ اگر ہم یسوع مسیح کی اِس بات پر عمل کریں گے تو ہم اُس فریسی کی طرح نہیں بنیں گے جس نے شیخی ماری تھی۔‏—‏لوقا ۶:‏۳۱‏۔‏

ایک بار کسی نے یسوع مسیح کو ”‏نیک اُستاد“‏ کہا تھا۔‏ کیا یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏ہاں،‏ مَیں تو بڑا نیک ہوں“‏؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ یسوع مسیح نے ایسا نہیں کہا بلکہ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏صرف خدا نیک ہے۔‏“‏ (‏مرقس ۱۰:‏۱۸‏)‏ عظیم اُستاد یسوع مسیح نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی تھی۔‏ پھر بھی وہ خود پر فخر نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ہمیشہ خدا کی تعریف کرتے تھے۔‏

تو پھر ہمیں کس پر فخر کرنا چاہئے؟‏ .‏.‏.‏.‏.‏.‏ ہمیں اپنے خالق یہوواہ خدا پر فخر کرنا چاہئے۔‏ خدا نے بہت سی خوب‌صورت چیزیں بنائی ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب سورج ڈوبتا ہے تو آسمان بڑا پیارا لگتا ہے۔‏ جب ہم خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھتے ہیں تو ہم لوگوں سے بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ”‏دیکھو،‏ یہوواہ خدا نے یہ سب کچھ بنایا ہے۔‏“‏ آئیں،‏ ہم لوگوں کو اُن شان‌دار کاموں کے بارے میں بتائیں جو یہوواہ خدا نے کئے ہیں اور جو وہ آئندہ کرے گا۔‏

یہ لڑکا کس پر فخر کر رہا ہے؟‏

ہمیں شیخی کیوں نہیں مارنی چاہئے؟‏ اِس سلسلے میں اِن آیتوں کو پڑھیں:‏ امثال ۱۶:‏۵،‏ ۱۸؛‏ یرمیاہ ۹:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏؛‏ اور ۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۴‏۔‏