مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 6

اُنہوں نے خدا کے حضور اپنے دل کا حال کھول دیا

اُنہوں نے خدا کے حضور اپنے دل کا حال کھول دیا

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ سفر کی تیاری کرتے وقت حنّہ اُداس کیوں تھیں؟‏ (‏ب)‏ حنّہ کی کہانی سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

حنّہ سفر کی تیاریوں میں مگن تھیں اور اپنی پریشانیوں سے دھیان ہٹانے کی کوشش کر رہی تھیں۔‏ اُن کا شوہر القانہ ہر سال کی طرح اِس سال بھی پورے گھرانے کو سیلا لے کر جا رہا تھا تاکہ وہ وہاں خیمۂ‌اِجتماع میں یہوواہ کی عبادت کر سکیں۔‏ یہوواہ چاہتا تھا کہ ایسے موقعوں پر منائی جانے والی عیدیں اُس کے بندوں کے لیے خوشی کا باعث ہوں۔‏ ‏(‏اِستثنا 16:‏15 کو پڑھیں۔‏)‏ بِلاشُبہ حنّہ بچپن سے شوق کے ساتھ اِن عیدوں میں جاتی ہوں گی۔‏ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں اُن کی زندگی کافی بدل چُکی تھی۔‏

2 حنّہ کو ایک ایسا جیون ساتھی ملا تھا جو اُن سے بہت پیار کرتا تھا۔‏ لیکن القانہ کی ایک اَور بیوی بھی تھی جس کا نام فننہ تھا۔‏ ایسا لگتا ہے کہ وہ حنّہ کی زندگی اجیرن بنانے پر تلی ہوئی تھی۔‏ یہاں تک کہ وہ سالانہ عیدوں پر بھی حنّہ کا دل دُکھانے سے باز نہیں آتی تھی۔‏ فننہ اپنی سوتن کو تکلیف کیسے پہنچاتی تھی؟‏ اور حنّہ اپنے ایمان کی بدولت ایک ایسی مشکل صورتحال کا مقابلہ کیسے کر پائیں جسے برداشت کرنا بظاہر ناممکن تھا؟‏ اگر آپ بھی کسی ایسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے آپ کی خوشی ماند پڑ رہی ہے تو آپ کو حنّہ کی کہانی پڑھ کر بڑا حوصلہ ملے گا۔‏

‏”‏تیرا دل کیوں آزردہ ہے؟‏“‏

3،‏ 4.‏ حنّہ کو کن دو مسائل کا سامنا تھا اور یہ اِتنے سنگین کیوں تھے؟‏

3 بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ حنّہ کی زندگی میں دو بڑے مسئلے تھے۔‏ ایک مسئلے پر تو وہ تھوڑا بہت قابو پا سکتی تھیں لیکن دوسرے مسئلے کے سلسلے میں کچھ کرنا اُن کے بس سے باہر تھا۔‏ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ اُن کی ایک سوتن تھی جو اُن سے سخت نفرت کرتی تھی۔‏ اور دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ وہ بانجھ تھیں۔‏ ویسے تو یہ صورتحال کسی بھی ایسی عورت کے لیے غم کا باعث ہو سکتی ہے جو ماں بننے کی خواہش رکھتی ہو لیکن حنّہ کے دَور میں تو یہ بات اَور بھی زیادہ تکلیف‌دہ تھی۔‏ دراصل ہر خاندان کا نام اُس کی اولاد کے ذریعے ہی آگے بڑھتا تھا۔‏ لہٰذا اگر کوئی عورت بانجھ ہوتی تو اُسے بڑی شرمندگی اور رُسوائی اُٹھانی پڑتی تھی۔‏

4 اگر حنّہ کی سوتن نہ ہوتی تو شاید وہ اِس تکلیف کو کسی نہ کسی طرح سہہ لیتیں۔‏ دراصل جس شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی تھیں،‏ اُس کے خاندان کو اکثر حسد،‏ جھگڑے اور جذباتی تکلیف جیسی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔‏ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج خدا کے اُس معیار کے بالکل اُلٹ تھا جو اُس نے باغِ‌عدن میں قائم کِیا تھا۔‏ (‏پید 2:‏24‏)‏ بائبل میں ایسے خاندانوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کا سکون اِس وجہ سے برباد ہو گیا کیونکہ شوہر نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہوئی تھیں۔‏ اور القانہ کا گھرانہ اِس کی ایک نمایاں مثال ہے۔‏

5.‏ فننہ،‏ حنّہ کو تکلیف کیوں پہنچانا چاہتی تھی اور وہ ایسا کیسے کرتی تھی؟‏

5 القانہ اپنی بیوی حنّہ سے زیادہ پیار کرتے تھے۔‏ بعض یہودی تاریخ‌دانوں کے مطابق حنّہ،‏ القانہ کی پہلی بیوی تھیں جبکہ فننہ سے اُنہوں نے کچھ سال بعد شادی کی تھی۔‏ فننہ،‏ حنّہ سے بےحد حسد کرتی تھی اور اُنہیں تکلیف پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی۔‏ دراصل فننہ کو اِس بات پر بڑا ناز تھا کہ اُس کے بچے ہیں اور جوں‌جوں اُس کے بچوں کی تعداد بڑھتی گئی،‏ اُسے اپنی اہمیت جتانے اور حنّہ کو نیچا دِکھانے کا اَور موقع ملتا گیا۔‏ حنّہ کی صورتحال پر افسوس کرنے اور اُنہیں تسلی دینے کی بجائے فننہ اُن کے زخموں پر نمک چھڑکتی تھی۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ فننہ اپنی سوتن کو ”‏کڑھانے کے لئے بےطرح چھیڑتی تھی۔‏“‏ (‏1-‏سمو 1:‏6‏)‏ فننہ کا مقصد حنّہ کو تکلیف پہنچانا تھا اور وہ اِس میں کامیاب بھی ہوئی۔‏

حنّہ بانجھ ہونے کی وجہ سے بہت دُکھی رہتی تھیں اور فننہ اُن کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی۔‏

6،‏ 7.‏ ‏(‏الف)‏ حنّہ نے القانہ کو فننہ کی حرکتوں کے بارے میں غالباً کیوں نہیں بتایا؟‏ (‏ب)‏ کیا حنّہ اِس وجہ سے بانجھ تھیں کیونکہ یہوواہ اُن سے ناخوش تھا؟‏ وضاحت کریں۔‏ (‏فٹ‌نوٹ کو دیکھیں۔‏)‏

6 ایسا لگتا ہے کہ فننہ،‏ حنّہ کو خاص طور پر اُس وقت ستاتی تھی جب وہ سب ہر سال عبادت کے لیے سیلا جاتے تھے۔‏ ہر سال کی طرح اِس سال بھی القانہ نے فننہ کے ”‏سب بیٹے بیٹیوں“‏ کو اُس قربانی میں سے حصہ دیا جو اُنہوں نے یہوواہ کے حضور چڑھائی تھی۔‏ لیکن اُنہوں نے اپنی بیوی حنّہ کو دُگنا حصہ دیا۔‏ یہ دیکھ کر فننہ جل بجھ گئی اور حنّہ کو یہ طعنے دینے لگی کہ وہ بانجھ ہیں۔‏ اِس وجہ سے بےچاری حنّہ بہت روئیں،‏ یہاں تک کہ اُنہوں نے کھانا کھانا بھی چھوڑ دیا۔‏ جب القانہ نے دیکھا کہ حنّہ دُکھی ہیں اور کھانا نہیں کھا رہیں تو اُنہوں نے حنّہ کو تسلی دینے کی کوشش کی۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اَے حنّہؔ تُو کیوں روتی ہے اور کیوں نہیں کھاتی اور تیرا دل کیوں آزردہ ہے؟‏ کیا مَیں تیرے لئے دس بیٹوں سے بڑھ کر نہیں؟‏“‏—‏1-‏سمو 1:‏4-‏8‏۔‏

7 القانہ کو اِس بات کا اندازہ تھا کہ حنّہ کی پریشانی کی وجہ اُن کا بانجھ‌پن ہے۔‏ جب القانہ،‏ حنّہ کو اپنی محبت کا یقین دِلاتے ہوں گے تو بِلاشُبہ اُنہیں بہت اچھا لگتا ہوگا۔‏ * لیکن القانہ نے حنّہ سے بات کرتے وقت فننہ کے بُرے رویے کا ذکر نہیں کِیا اور نہ ہی بائبل میں ایسا کوئی بیان ملتا ہے کہ حنّہ نے القانہ کو فننہ کی حرکتوں کے بارے میں بتایا ہو۔‏ شاید حنّہ سمجھتی تھیں کہ ایسا کرنے سے وہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہی ہوں گی۔‏ کیا القانہ اِس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ کر سکتے تھے؟‏ اگر حنّہ،‏ فننہ کی حرکتوں پر سے پردہ ہٹاتیں تو کیا وہ اُن کا جینا دوبھر نہ کر دیتی؟‏ اور کیا اُس کے بچے اور نوکر بھی اُسی کا ساتھ نہ دیتے؟‏ حنّہ پہلے ہی خود کو اپنے گھر میں اجنبی سمجھتی تھیں اور ایسا کوئی قدم اُٹھانے سے اُن کا یہ احساس اَور گہرا ہو جاتا۔‏

جب گھر میں حنّہ سے بُرا سلوک کِیا جاتا تھا تو وہ تسلی پانے کے لیے یہوواہ سے رُجوع کرتی تھیں۔‏

8.‏ جب دوسرے ہمیں دُکھ پہنچاتے یا ہمارے ساتھ نااِنصافی کرتے ہیں تو ہمیں کس بات سے تسلی مل سکتی ہے؟‏

8 ہم نہیں جانتے کہ القانہ کو یہ بات پوری طرح معلوم تھی یا نہیں کہ فننہ،‏ حنّہ کے ساتھ کتنے بُرے طریقے سے پیش آتی تھی۔‏ لیکن بائبل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔‏ اِس بات سے اُن سب لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو دل میں دوسروں کے لیے حسد اور نفرت رکھتے ہیں اور اُنہیں ایسے کاموں سے تکلیف پہنچاتے ہیں جو بظاہر اِتنے سنگین نہیں لگتے۔‏ اِس کے برعکس حنّہ جیسے بےقصور اور صلح‌پسند لوگ اِس بات سے تسلی پا سکتے ہیں کہ خدا اِنصاف‌پسند ہے اور اپنے وقت پر اور اپنے طریقے سے سب معاملات کو حل کرتا ہے۔‏ ‏(‏اِستثنا 32:‏4 کو پڑھیں۔‏)‏ شاید حنّہ بھی اِس بات سے واقف تھیں۔‏ اور غالباً اِسی وجہ سے اُنہوں نے مدد کے لیے خدا سے رُجوع کِیا۔‏

‏”‏پھر اُس کا چہرہ اُداس نہ رہا“‏

9.‏ ہم اِس بات سے کیا سیکھتے ہیں کہ حنّہ اپنی سوتن کے بُرے رویے کے باوجود سیلا گئیں؟‏

9 صبح صبح گھر میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔‏ بچوں سمیت سبھی لوگ سفر پر جانے کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔‏ القانہ اور اُن کا خاندان شہر رامہ میں رہتا تھا۔‏ اُنہیں سیلا تک جانے کے لیے اِفرائیم کے پہاڑی علاقے سے گزرنا تھا اور اُن کا یہ سفر 32 کلومیٹر (‏20 میل)‏ سے زیادہ کا تھا۔‏ پیدل یہ سفر طے کرنے میں اُنہیں ایک سے دو دن لگ سکتے تھے۔‏ حنّہ جانتی تھیں کہ اُن کی سوتن اُن کے ساتھ کیسا سلوک کرے گی۔‏ لیکن اِس کے باوجود وہ گھر پر نہیں رُکیں۔‏ یوں اُنہوں نے خدا کے بندوں کے لیے ایک عمدہ مثال قائم کی۔‏ ہمیں کبھی بھی دوسروں کے بُرے رویے کی وجہ سے یہوواہ کی عبادت کرنی نہیں چھوڑنی چاہیے۔‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم اُس حوصلہ‌افزائی سے محروم رہ جائیں گے جس کے ذریعے ہمیں اپنی مشکل کا سامنا کرنے کی ہمت مل سکتی ہے۔‏

10،‏ 11.‏ ‏(‏الف)‏ حنّہ جلد سے جلد خیمۂ‌اِجتماع کیوں گئیں؟‏ (‏ب)‏ اُنہوں نے یہوواہ کے حضور اپنے دل کا حال کیسے بیان کِیا؟‏

10 سارا دن اُونچے نیچے اور بل کھاتے پہاڑی راستے پر چلنے کے بعد آخرکار وہ سیلا کے قریب پہنچ گئے۔‏ یہ شہر ایک پہاڑ پر واقع تھا اور اُونچے اُونچے پہاڑوں سے گِھرا ہوا تھا۔‏ اُس وقت غالباً حنّہ کے دماغ میں یہی چل رہا تھا کہ وہ یہوواہ سے دُعا میں کیا کہیں گی۔‏ جب وہ وہاں پہنچ گئے تو سب نے مل کر کھانا کھایا۔‏ حنّہ جلد ہی باقی لوگوں کو چھوڑ کر خیمہ‌اِجتماع کی طرف چل پڑیں۔‏ کاہنِ‌اعظم عیلی خیمۂ‌اِجتماع کی چوکھٹ کے قریب ہی بیٹھے تھے۔‏ لیکن حنّہ نے اُن کی طرف نہیں دیکھا کیونکہ اُن کا دھیان اِسی بات پر تھا کہ اُنہیں خدا سے دُعا کرنی ہے۔‏ اُنہیں پورا یقین تھا کہ خیمۂ‌اِجتماع میں اُن کی دُعا ضرور سنی جائے گی۔‏ وہ جانتی تھیں کہ کوئی اَور اُن کے درد کو سمجھے نہ سمجھے،‏ اُن کا آسمانی باپ ضرور سمجھتا ہے۔‏ اُن کا دل بھر آیا اور آنکھیں تر ہو گئیں۔‏

11 حنّہ سسکیاں لے لے کر رو رہی تھیں اور دل ہی دل میں دُعا کر رہی تھیں۔‏ اُن کے ہونٹ ہل رہے تھے لیکن آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔‏ وہ بہت دیر تک اپنے آسمانی باپ کو اپنے دل کا حال بتاتی رہیں۔‏ اُنہوں نے خدا سے صرف یہ دُعا نہیں کی کہ وہ اُن کی ماں بننے کی خواہش پوری کر دے۔‏ وہ خدا سے صرف برکتیں حاصل نہیں کرنا چاہتی تھیں بلکہ اُسے کچھ دینا بھی چاہتی تھیں۔‏ لہٰذا اُنہوں نے یہوواہ کے حضور یہ منت مانی کہ اگر وہ اُنہیں ایک بیٹا عطا کرے گا تو وہ اُس بچے کو اُسے دے دیں گی تاکہ وہ ساری زندگی اُس کی خدمت کرے۔‏—‏1-‏سمو 1:‏9-‏11‏۔‏

12.‏ ہم دُعا کے سلسلے میں حنّہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

12 حنّہ نے دُعا کے سلسلے میں خدا کے بندوں کے لیے شان‌دار مثال قائم کی۔‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ اُس کے بندے دل کھول کر اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اُس کے حضور اپنی فکریں بیان کریں،‏ بالکل ویسے ہی جیسے ایک بچہ اپنے شفیق والدین کے سامنے کرتا ہے۔‏ ‏(‏زبور 62:‏8؛‏ 1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏17 کو پڑھیں۔‏)‏ پطرس رسول نے خدا کے اِلہام سے دُعا کے سلسلے میں یہ تسلی‌بخش بات لکھی:‏ ”‏اپنی ساری پریشانیاں اُس پر ڈال دیں کیونکہ اُس کو آپ کی فکر ہے۔‏“‏—‏1-‏پطر 5:‏7‏۔‏

13،‏ 14.‏ ‏(‏الف)‏ عیلی،‏ حنّہ کے بارے میں غلط‌فہمی کا شکار کیسے ہو گئے؟‏ (‏ب)‏ حنّہ نے اُس وقت ایمان کی عمدہ مثال کیسے قائم کی جب عیلی نے اُن پر بےبنیاد اِلزام لگایا؟‏

13 جتنی اچھی طرح یہوواہ کسی اِنسان کی تکلیف کو سمجھ سکتا ہے،‏ دوسرے اِنسان نہیں سمجھ سکتے۔‏ جب حنّہ رو رو کر دُعا کر رہی تھیں تو اُنہوں نے اچانک ایک آواز سنی۔‏ یہ کاہنِ‌اعظم عیلی کی آواز تھی جو کافی دیر سے حنّہ کو دیکھ رہے تھے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏تُو کب تک نشہ میں رہے گی؟‏ اپنا نشہ اُتار۔‏“‏ عیلی نے دیکھا تھا کہ حنّہ کچھ بڑبڑا رہی تھیں اور سسکیاں لے رہی تھیں۔‏ لیکن حنّہ سے یہ پوچھنے کی بجائے کہ وہ کس مشکل میں ہیں،‏ عیلی نے فوراً یہ نتیجہ نکال لیا کہ وہ نشے میں ہیں۔‏—‏1-‏سمو 1:‏12-‏14‏۔‏

14 حنّہ پہلے ہی بڑے کرب سے گزر رہی تھیں اور اب ایک ایسا شخص اُن پر بےبنیاد اِلزام لگا رہا تھا جو بڑے مُعزز عہدے پر فائز تھا۔‏ بِلاشُبہ اِس سے حنّہ کو بہت دُکھ پہنچا ہوگا۔‏ لیکن اُنہوں نے ایک بار پھر ایمان کی عمدہ مثال قائم کی۔‏ وہ ایک عیب‌دار اِنسان کی تلخ بات کی وجہ سے یہوواہ کی عبادت کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں۔‏ اُنہوں نے عیلی کو بڑے احترام سے جواب دیا اور اُنہیں اپنی ساری صورتحال بتائی۔‏ عیلی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اُنہوں نے غالباً نرم لہجے میں حنّہ سے کہا:‏ ”‏تُو سلامت جا اور اِؔسرائیل کا خدا تیری مُراد جو تُو نے اُس سے مانگی ہے پوری کرے۔‏“‏—‏1-‏سمو 1:‏15-‏17‏۔‏

15،‏ 16.‏ ‏(‏الف)‏ خیمۂ‌اِجتماع میں دل کھول کر یہوواہ سے دُعا کرنے اور اُس کی عبادت کرنے کا حنّہ پر کیا اثر ہوا؟‏ (‏ب)‏ جب ہم غمگین یا پریشان ہوتے ہیں تو ہم حنّہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

15 خیمۂ‌اِجتماع میں دل کھول کر یہوواہ سے دُعا کرنے اور اُس کی عبادت کرنے کا حنّہ پر کیا اثر ہوا؟‏ بائبل میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏تب وہ عورت چلی گئی اور کھانا کھایا اور پھر اُس کا چہرہ اُداس نہ رہا۔‏“‏ (‏1-‏سمو 1:‏18‏)‏ حنّہ اب مطمئن ہو گئی تھیں۔‏ ایک لحاظ سے اُنہوں نے اپنا بوجھ اپنے کندھوں سے اُتار کر اپنے آسمانی باپ کے کندھوں پر ڈال دیا تھا جو اُن سے کہیں زیادہ طاقت رکھتا ہے۔‏ ‏(‏زبور 55:‏22 کو پڑھیں۔‏)‏ کیا کوئی ایسا مسئلہ ہے جسے حل کرنا یہوواہ کے لیے ناممکن ہو؟‏ جی نہیں۔‏ یہ بات حنّہ کے زمانے میں بھی سچ تھی،‏ آج بھی سچ ہے اور ہمیشہ سچ رہے گی۔‏

16 جب ہم غم یا پریشانی کے بوجھ تلے دبے ہوں تو ہم بھی حنّہ کی طرح دل کھول کر اُس ہستی سے بات کر سکتے ہیں جسے بائبل میں ’‏دُعا کا سننے والا‘‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏زبور 65:‏2‏)‏ اگر ہم پورے ایمان کے ساتھ دُعا کریں گے تو ہماری اُداسی دُور ہو جائے گی اور ”‏خدا [‏ہمیں]‏ وہ اِطمینان دے گا جو سمجھ سے باہر ہے۔‏“‏—‏فل 4:‏6،‏ 7‏۔‏

‏’‏کوئی چٹان نہیں ہے جو ہمارے خدا کی مانند ہو‘‏

17،‏ 18.‏ ‏(‏الف)‏ جب القانہ کو حنّہ کی منت کے بارے میں پتہ چلا تو اُنہوں نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏ (‏ب)‏ فننہ جلد ہی کیا سمجھ گئی؟‏

17 اگلی صبح حنّہ،‏ القانہ کے ساتھ خیمۂ‌اِجتماع گئیں۔‏ غالباً اُنہوں نے القانہ کو اُس منت کے بارے میں بتایا ہوگا جو اُنہوں نے یہوواہ کے حضور مانی تھی۔‏ موسیٰ کی شریعت کے مطابق اگر ایک بیوی اپنے شوہر کی اِجازت کے بغیر کوئی منت مان لیتی تھی تو اُس کا شوہر اِسے ختم کرنے کا حق رکھتا تھا۔‏ (‏گن 30:‏10-‏15‏)‏ لیکن القانہ نے ایسا کچھ نہیں کِیا۔‏ اِس کی بجائے وہ گھر لوٹنے سے پہلے حنّہ کے ساتھ خیمۂ‌اِجتماع گئے اور وہاں دونوں نے مل کر یہوواہ کی عبادت کی۔‏

18 بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ فننہ کو یہ احساس کب ہوا کہ اُس کی کڑوی باتوں کا اب حنّہ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔‏ لیکن بائبل میں درج اِصطلاح ”‏چہرہ اُداس نہ رہا“‏ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خیمۂ‌اِجتماع میں دُعا کرنے کے بعد سے حنّہ کا دل مطمئن ہو گیا تھا۔‏ بہرحال فننہ جلد ہی یہ سمجھ گئی تھی کہ اب حنّہ کو تکلیف پہنچانے کے لیے اُس کا کوئی بھی حربہ کام نہیں آئے گا۔‏ بائبل میں اِس کے بعد فننہ کا ذکر نہیں ملتا۔‏

19.‏ ‏(‏الف)‏ حنّہ کو کون سی برکت ملی؟‏ (‏ب)‏ حنّہ نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ جانتی ہیں کہ اُنہیں یہ برکت کس کی طرف سے ملی ہے؟‏

19 مہینے گزرتے گئے۔‏ حنّہ نے اپنی زندگی سے اُداسی کے جن کانٹوں کو اُکھاڑ پھینکا تھا،‏ اُن کی جگہ اب خوشیوں کے پھول کھل گئے۔‏ وہ حاملہ ہو گئیں۔‏ لیکن خوشی کے اِس وقت میں وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ بھولیں کہ اُنہیں یہ برکت کس کی طرف سے ملی ہے۔‏ جب اُن کا بیٹا پیدا ہوا تو اُنہوں نے اُس کا نام سموئیل رکھا جس کا مطلب ہے:‏ ”‏خدا کا نام۔‏“‏ غالباً اُنہوں نے یہ نام اِس لیے چُنا کیونکہ اُنہوں نے خدا کا نام لے کر بیٹا مانگا تھا۔‏ اُس سال حنّہ القانہ اور باقی گھر والوں کے ساتھ سیلا نہیں گئیں۔‏ وہ تین سال تک اپنے بیٹے کے ساتھ گھر پر ہی رہیں جب تک کہ اُس کا دودھ نہیں چھڑایا گیا۔‏ پھر اُنہوں نے اپنے دل کو مضبوط کِیا کیونکہ وہ وقت آنے والا تھا جب اُنہیں اپنے پیارے بیٹے سے جُدا ہونا تھا۔‏

20.‏ حنّہ اور القانہ نے خدا کے حضور جو منت مانی تھی،‏ اُنہوں نے اُسے کیسے پورا کِیا؟‏

20 حنّہ کے لیے اپنے جگر کے ٹکڑے کو خود سے جُدا کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔‏ وہ جانتی تھیں کہ خیمۂ‌اِجتماع میں خدمت کرنے والی عورتیں یا پھر کوئی اَور سموئیل کی اچھی دیکھ‌بھال کرے گا۔‏ لیکن وہ بچہ ابھی بہت چھوٹا تھا اور بھلا کون سی ماں اِتنے کم‌عمر بچے کو اپنی نظروں سے دُور کرنا چاہے گی۔‏ لیکن حنّہ اور القانہ بےدلی سے نہیں بلکہ شکرگزاری سے بھرے دل کے ساتھ اپنے بیٹے کو سیلا لے کر گئے۔‏ وہاں اُنہوں نے خدا کے گھر میں قربانیاں چڑھائیں۔‏ اُنہوں نے عیلی کو یاد دِلایا کہ حنّہ نے تین سال پہلے خدا سے کیا منت مانی تھی اور پھر سموئیل کو عیلی کے سپرد کِیا۔‏

سموئیل کے لیے یہ بڑی برکت تھی کہ اُنہیں حنّہ جیسی ماں ملی تھی۔‏

21.‏ حنّہ کی دُعا سے اُن کے ایمان کی گہرائی کا اندازہ کیسے ہوتا ہے؟‏ (‏بکس ”‏ دو خوب‌صورت دُعائیں‏“‏ کو بھی دیکھیں۔‏)‏

21 پھر حنّہ نے خدا سے دُعا کی۔‏ یہ دُعا اِتنی عمدہ تھی کہ خدا نے اِسے اپنے کلام میں شامل کروایا ہے۔‏ جب آپ 1-‏سموئیل 2:‏1-‏10 میں درج اِس دُعا کو پڑھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ اِس کے ایک ایک جملے سے حنّہ کے ایمان کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کی تمجید کی اور کہا کہ وہ بڑے شان‌دار طریقے سے اپنی قوت کو اِستعمال کرتا ہے؛‏ مغروروں کے غرور کو توڑتا ہے؛‏ ظلم سہنے والوں کو رِہائی دِلاتا ہے اور کسی کی زندگی کو ختم کرنے یا اُسے موت کے مُنہ سے بچانے کی طاقت رکھتا ہے۔‏ اُنہوں نے خدا کی بڑائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہایت مُقدس اور اِنصاف‌پسند ہے اور اپنے بندوں کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔‏ لہٰذا حنّہ ٹھوس وجوہات کی بِنا پر یہ کہہ سکتی تھیں:‏ ’‏کوئی چٹان نہیں ہے جو ہمارے خدا کی مانند ہو۔‏‘‏ یہوواہ مکمل طور پر قابلِ‌بھروسا ہے اور وہ کبھی نہیں بدلتا۔‏ وہ اُن سب مظلوم اور بےسہارا لوگوں کی پناہ‌گاہ ہے جو مدد کے لیے اُس سے رُجوع کرتے ہیں۔‏

22،‏ 23.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ سموئیل جانتے تھے کہ اُن کے ماں باپ اُن سے پیار کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے حنّہ کو اَور کون سی برکتیں دیں؟‏

22 سموئیل کے لیے یہ بات کسی برکت سے کم نہیں تھی کہ اُن کی ماں بہت مضبوط ایمان کی مالک تھی۔‏ بِلاشُبہ وہ اپنی ماں کو بہت یاد کرتے ہوں گے لیکن اُنہیں ایسا کبھی نہیں لگا کہ اُن کی ماں اُنہیں بھول گئی ہے۔‏ حنّہ ہر سال سیلا جاتی تھیں اور سموئیل کے لیے جُبّہ بنا کر لے جاتی تھیں تاکہ وہ خیمۂ‌اِجتماع میں خدمت کے دوران اِسے پہنیں۔‏ ‏(‏1-‏سموئیل 2:‏19 کو پڑھیں۔‏)‏ ذرا تصور کریں کہ حنّہ خیمۂ‌اِجتماع آئی ہوئی ہیں اور بڑے پیار سے اپنے بیٹے کو وہ جُبّہ پہنا رہی ہیں جس میں اُنہوں نے اپنی ممتا اور فکرمندی کے جذبات پیروئے ہوئے ہیں۔‏ ہاتھ سے اِس کی سلوٹیں دُور کرتے ہوئے وہ بڑی شفقت اور محبت سے سموئیل کو اچھی اچھی نصیحتیں کر رہی ہیں۔‏ سموئیل واقعی بڑے بابرکت تھے کہ اُن کی ماں اِتنی اچھی تھی۔‏ اور وہ خود بھی بڑے ہو کر اپنے ماں باپ اور پوری اِسرائیلی قوم کے لیے ایک برکت ثابت ہوئے۔‏

23 یہوواہ نے حنّہ کو اَور بھی برکتوں سے نوازا۔‏ اُن کے اور القانہ کے پانچ اَور بچے ہوئے۔‏ (‏1-‏سمو 2:‏21‏)‏ لیکن حنّہ کے لیے سب سے بڑی برکت یہوواہ خدا کے ساتھ اُن کی دوستی تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی گئی۔‏ دُعا ہے کہ جب آپ حنّہ جیسا ایمان ظاہر کرتے ہیں تو خدا کے ساتھ آپ کی دوستی بھی اَور مضبوط ہو جائے۔‏

^ پیراگراف 7 سچ ہے کہ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ نے ”‏[‏حنّہ]‏ کا رحم بند کر رکھا تھا“‏ لیکن اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ خدا اپنی اِس وفادار اور خاکسار بندی سے ناخوش تھا۔‏ (‏1-‏سمو 1:‏5‏)‏ بائبل میں کبھی کبھار یہوواہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے فلاں کام کِیا ہے حالانکہ وہ محض اِسے کچھ عرصے کے لیے ہونے دیتا ہے۔‏