خدا انسان کو دُکھ اور تکلیف کیوں سہنے دیتا ہے؟
گیارھواں باب
خدا انسان کو دُکھ اور تکلیف کیوں سہنے دیتا ہے؟
کیا خدا انسان پر مصیبتیں لاتا ہے؟
باغِعدن میں شیطان نے کونسا دعویٰ کِیا؟
خدا دُکھ کے اندھیروں کو خوشیوں کے اُجالے میں کیسے بدل دے گا؟
۱، ۲. آجکل لوگوں کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ اور وہ ان مشکلات کی وجہ سے خود سے کونسے سوال کرتے ہیں؟
ایک مُلک میں شدید خونریزی ہوئی جس کے نتیجے میں ہزاروں عورتیں اور بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اُن کی لاشوں کو اکٹھا کرکے ایک بڑی قبر میں دفنایا گیا۔ اس قبر کے گِرداگِرد تختیاں لگائی گئیں۔ ہر تختی پر یہی سوال لکھا تھا: ”آخر کیوں؟“ اور واقعی جب جنگوں، آفتوں، بیماریوں یا پھر جرائم کی وجہ سے ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے یا ہمیں مالی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے تو ہم غمگین ہو کر خود سے پوچھتے ہیں کہ ”ایسا کیوں ہوا ہے؟“
۲ ہم نے سیکھا ہے کہ یہوواہ خدا کی قدرت اور حکمت لامحدود ہے، وہ انصافپسند ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔ توپھر دُنیا میں اتنی بےانصافی اور نفرت کیوں دیکھنے میں آتی ہے؟ خدا انسان کو دُکھ اور تکلیف کیوں سہنے دیتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی خود سے ایسے سوال کئے ہیں؟
۳، ۴. (ا) دُنیا میں پائی جانے والی بُرائی اور تکلیف کے بارے میں سوال کرنا غلط کیوں نہیں ہے؟ (ب) یہوواہ خدا دُنیا میں ہونے والی بُرائی اور مصیبتوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟
۳ کیا ایسے سوال کرنا غلط ہے؟ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے سوال کرنا خدا کی ذات پر شک کرنے کے برابر ہے۔ اُن کے نزدیک جو شخص ایسے سوال پوچھتا ہے اُس کا ایمان کمزور ہے۔ لیکن پاک صحائف میں خدا کے چند وفادار خادموں کا ذکر ہے جنہوں نے کچھ ایسے ہی سوال کئے تھے۔ مثال کے طور حبقوق ۱:۳، کیتھولک ترجمہ۔
پر حبقوق نبی نے خدا سے پوچھا تھا کہ ”تُو مجھے کیوں بدکرداری اور مصیبت دکھاتا ہے کہ مَیں ستم اور ظلم پر نظر کروں۔ فتنہوفساد میرے سامنے برپا ہوتا رہتا ہے۔“—۴ کیا یہوواہ خدا حبقوق نبی کے اِن سوالوں پر ناراض ہوا؟ جینہیں، بلکہ خدا نے اپنے خادم کے سوال پاک صحائف میں درج کروائے۔ اس کے علاوہ خدا نے حبقوق کو اِن معاملات کو سمجھنے اور اپنے ایمان کو مضبوط بنانے میں بھی مدد دی۔ بالکل اسی طرح یہوواہ خدا ہماری بھی مدد کرنا چاہتا ہے۔ پاک صحائف میں لکھا ہے کہ ”اُس کو تمہاری فکر ہے۔“ (۱-پطرس ۵:۷) انسانوں سے کہیں زیادہ یہوواہ خدا کو دُنیا میں ہونے والی بُرائی سے نفرت ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ انسان دُکھ اور تکلیف سہیں۔ (یسعیاہ ۵۵:۸، ۹) تو پھر دُنیا میں اتنی بُرائی کیوں پائی جاتی ہے اور لوگ مصیبتوں کے بوجھ تلے کیوں دبے جا رہے ہیں؟
ہمیں دُکھ اور تکلیف کیوں سہنی پڑتی ہے؟
۵. مذہبی رہنما اس سوال کا کیا جواب دیتے ہیں کہ انسان کو دُکھ اور مصیبتوں کا سامنا کیوں ہے؟ اس سلسلے میں پاک صحائف کی تعلیم کیا ہے؟
۵ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے مذہبی رہنماؤں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ”ہمیں دُکھ اور مصیبتوں کا سامنا کیوں ہے؟“ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اکثر مذہبی رہنما کہتے ہیں کہ ”خدا کی مرضی یہی ہے۔ انسان پر جو کچھ گزرتا ہے، چاہے اچھا ہو یا بُرا، خدا اِسے طے کر چکا ہے۔“ کئی مذہبی ایوب ۳۴:۱۰۔
رہنما کہتے ہیں کہ ”خدا کی مرضی انسان کی سمجھ سے باہر ہے۔“ دیگر یہ بھی کہتے ہیں کہ ”خدا لوگوں کو آسمان پر اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے اس لئے وہ اُن پر موت لاتا ہے۔“ لیکن جیسا کہ آپ نے سیکھا ہے یہوواہ خدا کبھی کوئی بُرا کام نہیں کرتا اور نہ ہی انسان کو دُکھ پہنچاتا ہے۔ چُنانچہ پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے کہ ”ہرگز ہو نہیں سکتا کہ خدا شرارت کا کام کرے اور قادرِمطلق بدی کرے۔“—۶. لوگ کیوں کہتے ہیں کہ خدا اُن پر آفتیں اور مصیبتیں لاتا ہے؟
۶ توپھر لوگ کیوں کہتے ہیں کہ خدا اُن پر آفتیں اور مصیبتیں لاتا ہے؟ اکثر وہ خدا کو ان باتوں کا ذمہدار اس لئے ٹھہراتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں خدا اِس دُنیا کا حاکم ہے۔ ایسے لوگ پاک صحائف کی ایک بہت اہم سچائی کے بارے میں نہیں جانتے۔ لیکن آپ اس کتاب کے تیسرے باب میں اس سچائی کے بارے میں سیکھ چکے ہیں کہ اِس دُنیا کا حاکم خدا نہیں بلکہ شیطان ہے۔
۷، ۸. (ا) ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ دُنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اس کے حاکم کی فطرت کے عین مطابق ہے؟ (ب) گُناہ کا داغ ورثے میں پانے اور ”سب کے لئے وقت اور حادثہ“ ہونے کا کیا اثر رہا ہے؟
۷ پاک صحائف میں بتایا گیا ہے کہ ”ساری دُنیا اُس شریر [یعنی شیطان] کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔“ (۱-یوحنا ۵:۱۹) ذرا اس بات پر غور کریں۔ اِس دُنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ اُس کی فطرت کے عین مطابق نہیں جو ”سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے“؟ (مکاشفہ ۱۲:۹) جیہاں، شیطان دھوکےباز، ظالم اور نہایت ہی بُرا ہے۔ وہ اِس دُنیا کا حاکم ہے۔ لہٰذا حیرانگی کی بات نہیں کہ دُنیا میں اتنا ظلم اور اتنی بُرائی پائی جاتی ہے۔
۸ جیسا کہ آپ اس کتاب کے تیسرے باب میں سیکھ چکے ہیں باغِعدن میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے انسان نے گُناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے۔ اس لئے انسان ایک دوسرے پر اختیار جتانے کی کوشش میں رہتے ہیں جس کے نتیجے میں تشدد، جنگ اور ظلم عام ہو گئے ہیں اور لوگوں کو دُکھ اور تکلیف سہنی پڑتی ہے۔ (واعظ ۴:۱؛ ۸:۹) لوگ اس وجہ سے بھی دُکھ اور مصیبتوں کا شکار ہیں کیونکہ ”سب کے لئے وقت اور حادثہ ہے۔“ (واعظ ۹:۱۱) چونکہ یہوواہ خدا اس دُنیا کا حاکم نہیں ہے اس لئے یہ دُنیا اُس کے تحفظ سے محروم ہے۔ لہٰذا ہم پر کسی بھی وقت کوئی نہ کوئی حادثہ آن پڑ سکتا ہے۔
۹. ہم کیوں جانتے ہیں کہ اگر خدا آفتوں اور بُرائیوں کو نہیں روکتا تو اُس کے پاس ایسا کرنے کی ایک اہم وجہ ہوگی؟
۹ ہم یہ جان کر تسلی پاتے ہیں کہ خدا ہم پر دُکھ اور مصیبتیں نہیں لاتا۔ خدا نہ ہی دُنیا پر آنے والی قدرتی آفتوں کا ذمہدار ہے اور نہ ہی اُن جنگوں اور جرائم کا جن کی وجہ سے لوگ دُکھ سہہ رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمیں یہ سوال ستاتا ہے کہ خدا ان باتوں کو کیوں واقع ہونے دیتا ہے؟ خدا تو ان تمام آفتوں اور بُرائیوں کو روکنے کی طاقت رکھتا ہے۔ توپھر وہ ایسا کیوں نہیں کرتا؟ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، خدا کو ہم سے گہری محبت ہے۔ لہٰذا، اگر وہ ان باتوں کو نہیں روکتا تو اُس کے پاس ایسا کرنے کی ایک اہم وجہ ہوگی۔—باغِعدن میں بغاوت
۱۰. شیطان نے حوا کے ذہن میں کس بات کا شک ڈالا اور اُس نے ایسا کرنے کے لئے کیا کِیا؟
۱۰ یہ جاننے کے لئے کہ خدا انسانوں کو دُکھ اور تکلیف کیوں سہنے دیتا ہے ہمیں باغِعدن میں ہونے والے واقعات پر غور کرنا ہوگا کیونکہ انہی واقعات کی وجہ سے تکلیف کا دَور شروع ہوا تھا۔ جب شیطان نے حوا کو خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا تو اُس نے حوا کے ذہن میں یہ شک ڈالا کہ خدا ایک اچھا حکمران نہیں ہے۔ غور کریں کہ شیطان نے اُس کے ذہن میں خدا کی قدرت کے بارے میں شک نہیں ڈالا کیونکہ شیطان بھی جانتا ہے کہ خدا کی قدرت لامحدود ہے۔ البتہ شیطان نے دعویٰ کِیا کہ خدا حکمرانی کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اُس نے الزام لگایا کہ خدا جھوٹا ہے اور اپنے بندوں کو اچھی چیزوں سے محروم رکھتا ہے۔ (پیدایش ۳:۲-۵) شیطان کا دعویٰ تھا کہ انسان کو خدا کی حکمرانی کی ضرورت نہیں ہے۔
۱۱. یہوواہ خدا نے باغِعدن میں باغیوں کو فوراً ہلاک کیوں نہیں کِیا؟
۱۱ آدم اور حوا نے یہوواہ خدا کے خلاف بغاوت کی۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ ”ہمیں یہوواہ خدا کی حکمرانی کی ضرورت نہیں۔ ہم خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے لئے اچھا کیا ہے اور بُرا کیا۔“ یہوواہ خدا تمام عقلمند مخلوق پر کیسے واضح کر سکتا تھا کہ اِن باغیوں کے دعوے غلط ہیں اور اُس کی حکمرانی سب سے اچھی ہے؟ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کو اُسی وقت اِن باغیوں کو ختم کر دینا چاہئے تھا اور پھر نئے انسان خلق کرکے زمین کو آباد کرنا چاہئے تھا۔ لیکن یہوواہ خدا طے کر چکا تھا کہ آدم ہی کی اولاد زمین پر آباد ہوگی۔ پیدایش ۱:۲۸) اور یہوواہ خدا جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ اُسے پورا بھی کرتا ہے۔ (یسعیاہ ۵۵:۱۰، ۱۱) اس کے علاوہ اگر خدا باغِعدن میں باغیوں کو فوراً ہلاک کر دیتا تو اُس کی حکمرانی پر جو شک کِیا گیا تھا وہ کبھی دُور نہ ہوتا۔
اُس کا ارادہ تھا کہ آدم کی اولاد ایک فردوسی زمین پر ہمیشہ تک زندگی کا لطف اُٹھائے۔ (۱۲، ۱۳. تمثیل دے کر بتائیں کہ یہوواہ خدا نے شیطان کو دُنیا کا حاکم بننے اور انسان کو ایک دوسرے پر حکومت کرنے کی اجازت کیوں دی۔
۱۲ آئیں ہم اس سلسلے میں ایک تمثیل پر غور کریں۔ فرض کریں کہ ایک اُستاد کلاس کو حساب لگانے کا ایک خاص طریقہ بتا رہا ہے۔ اچانک ایک طالبعلم کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ یہ طریقہ غلط ہے۔ وہ اُستاد کی مہارت پر شک ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ حساب لگانے کا ایک بہتر طریقہ جانتا ہے۔ کئی طالبعلم اس باغی کی بات پر یقین کرکے اُس کا ساتھ دینے لگتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اُستاد کو کیا کرنا چاہئے؟ اگر وہ ان باغی طالبعلموں کو کلاس سے نکال دے تو دوسرے طالبعلموں پر کیا اثر ہوگا؟ شاید وہ سوچنے لگیں کہ ”وہ طالبعلم سچ ہی کہہ رہا تھا۔ اُستاد نے اُسے اس ڈر سے نکالا ہے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس طالبعلم کا دعویٰ سچا ثابت ہو جائے۔“ اس طرح اُن کے دل میں اُستاد کا احترام ختم ہو جائے گا۔ لیکن فرض کریں کہ اُستاد اُس باغی طالبعلم کو اجازت دے کہ وہ تمام طالبعلموں کے سامنے حساب لگانے کا اپنا طریقہ پیش کرے۔
ایوب ۳۸:۷؛ مکاشفہ ۵:۱۱) یہوواہ خدا اس بغاوت سے نپٹنے کے لئے جو بھی طریقہ اختیار کرتا اس کا ان تمام فرشتوں اور آئندہ آنے والی انسانی نسل پر بھی اثر ہوتا۔ توپھر یہوواہ خدا نے کیا کِیا؟ اُس نے شیطان کو دُنیا کا حاکم بننے کی اجازت دی تاکہ وہ ثابت کر سکے کہ آیا اُس کی حکمرانی واقعی بہتر ہے یا نہیں۔ یہوواہ خدا نے انسانوں کو بھی ایک دوسرے پر حکومت کرنے کی اجازت دی اور وہ شیطان کی سرپرستی میں ایسا کر رہے ہیں۔
۱۳ یہوواہ خدا نے بھی باغیوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی رویہ اختیار کِیا۔ یاد رکھیں کہ باغِعدن میں ہونے والی بغاوت کے وقت آدم، حوا اور شیطان اکیلے نہیں تھے۔ یہوواہ خدا کے کروڑوں فرشتے بھی ان واقعات کو دیکھ رہے تھے۔ (۱۴. خدا نے انسان کو حکومت کرنے کی اجازت کیوں دی ہے؟
۱۴ اِس تمثیل میں جس اُستاد کا ذکر کِیا گیا ہے وہ جانتا ہے کہ باغی طالبعلم اور اُس کے ساتھی غلطی پر ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر وہ اُس طالبعلم کو اپنا دعویٰ ثابت کرنے کا موقع دے گا تو پوری کلاس کو فائدہ ہوگا۔ جب یہ ثابت ہو جائے گا کہ باغی طالبعلم نے جس طریقے سے حساب لگایا ہے وہ غلط ہے تو دوسرے طالبعلم جان جائیں گے کہ اُستاد ہی اُنہیں حساب سکھانے کی لیاقت رکھتا ہے۔ اور آئندہ اگر کوئی طالبعلم اُستاد کی بات پر شک کرے تو اُستاد اُس کو فوراً کلاس سے نکال سکے گا اور باقی طالبعلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اسی طرح یہوواہ خدا بھی جانتا ہے کہ شیطان سمیت باقی باغیوں کو حکمرانی کرنے کی اجازت دینے سے شیطان کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہو جائے گا۔ تمام اچھے انسان اور فرشتوں کو اس بات سے فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ وہ اِس حقیقت کو جان جائیں گے: ”اَے [یہوواہ]! مَیں جانتا ہوں کہ انسان کی راہ اُس کے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنی روِش میں اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔“—یرمیاہ ۱۰:۲۳۔
خدا نے باغیوں کو اتنا زیادہ وقت کیوں دیا؟
۱۵، ۱۶. (ا) خدا نے انسانوں کو اتنے عرصے تک دُکھ اور تکلیف کا شکار کیوں ہونے دیا ہے؟ (ب) خدا جرائم جیسے بھیانک کاموں کو ہونے سے کیوں نہیں روکتا؟
۱۵ لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی انسان دُکھ اور تکلیف کا شکار کیوں ہیں؟ اور خدا ہم پر آفتیں اور مصیبتیں کیوں آنے دیتا ہے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ تمثیل میں اُستاد نے دو کام نہیں کئے۔ ایک تو اُس نے
باغی طالبعلم کو اپنا دعویٰ ثابت کرنے سے نہیں روکا۔ دوسرا، جب یہ ظاہر ہونے لگا کہ طالبعلم کا طریقہ درست نہیں ہے تو اُستاد نے حساب لگانے میں اُس طالبعلم کی مدد نہیں کی۔ اسی طرح یہوواہ خدا نے بھی ارادہ کِیا ہے کہ وہ دو کام ہرگز نہیں کرے گا۔ پہلے تو یہ کہ وہ شیطان اور اُس کے ساتھیوں کو اپنا دعویٰ ثابت کرنے سے نہیں روکے گا۔ لہٰذا یہوواہ خدا نے اُن کو اتنا وقت دیا ہے کہ وہ جی بھر کر اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کر سکیں۔ انسان ہزاروں سال سے ایک دوسرے پر حکومت کرتے آ رہے ہیں اور اُنہوں نے حکومت کرنے کے بہت سے مختلف طریقے بھی آزمائے ہیں۔ اس سب کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ یہ بات درست ہے کہ انسان نے سائنس اور دوسرے میدانوں میں ترقی کی ہے۔ لیکن اس کا کیا فائدہ جبکہ زمین پر ناانصافی، غربت، جرائم، اور جنگوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے؟ جیہاں، یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسان حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔۱۶ یہوواہ خدا نے جس دوسری بات کا ارادہ کِیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ دُنیا پر حکمرانی کرنے میں شیطان کی مدد نہیں کرے گا۔ ذرا سوچیں، اگر خدا مُجرموں کو بھیانک جُرم کرنے سے روکتا تو دُنیا کے حالات اتنے بگڑ نہ جاتے اور لوگ یہ سمجھنے لگتے کہ شیطان کا دعویٰ درست ہے۔ وہ اس بات پر ڈٹے رہتے کہ انسان کو واقعی خدا کی حکمرانی کی ضرورت نہیں بلکہ وہ خود حکومت چلانے کے قابل ہے۔ لہٰذا، اگر خدا دُنیا میں ہونے والی بُرائی کو روکتا تو وہ شیطان کو اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے میں مدد دے رہا ہوتا۔ ایسا کرنے سے خدا جھوٹ کو فروغ دیتا۔ اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ پاک صحائف میں لکھا ہے کہ ”خدا کا جھوٹ بولنا ممکن نہیں۔“—عبرانیوں ۶:۱۸۔
۱۷، ۱۸. شیطان اور انسانوں کی حکمرانی کی وجہ سے جو نقصان ہوا ہے یہوواہ خدا اُس کے اثرات کو کیسے مٹائے گا؟
۱۷ لیکن شیطان کی بغاوت کی وجہ سے جو نقصان ہوا ہے اُس کے اثرات کو کیسے مٹایا جائے گا؟ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا کی قدرت لامحدود ہے۔ شیطان اور انسانوں نے اپنی حکمرانی کے دوران جو تباہی مچائی ہے یہوواہ خدا اس کے تمام اثرات کو بڑی آسانی سے مٹا سکتا ہے اور وہ ایسا ضرور کرے گا۔ مثال کے طور پر جیسا کہ ہم سیکھ چکے ہیں یہوواہ خدا زمین کو ایک فردوس میں تبدیل کرکے اس پر سے آلودگی کو ختم کر دے گا۔ اسی طرح یسوع مسیح کی جان کی قربانی کی بِنا پر لوگوں پر سے گُناہ کا داغ مٹا دیا جائے گا۔ اور جب مُردوں کو ۱-یوحنا ۳:۸) یہ سب کچھ عین اُس وقت واقع ہوگا جب یہوواہ خدا اسے مناسب سمجھے گا۔ ہم خدا کا شکر ادا کر سکتے ہیں کہ اُس نے شیطان اور اُس کے ساتھیوں کو ابھی تک ختم نہیں کِیا کیونکہ اس طرح ہمیں یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھنے اور اُس کی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے۔ (۲-پطرس ۳:۹، ۱۰) شیطان کی حکمرانی کے دوران یہوواہ خدا ایسے خلوص دل لوگوں کو ڈھونڈ رہا ہے جو اُس کی عبادت کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ اُن کو آزمائشوں اور اذیتوں سے نپٹنے میں مدد بھی دیتا ہے۔—یوحنا ۴:۲۳؛ ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳۔
زندہ کِیا جائے گا تو خدا اس دُکھ کو بھی دُور کرے گا جو انسانوں نے موت کی وجہ سے اُٹھایا ہے۔ جیہاں، یسوع مسیح خدا کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ’ابلیس کے کاموں کو مٹا دے گا۔‘ (۱۸ کئی لوگ کہتے ہیں کہ اگر خدا نے انسان کو اس طرح خلق کِیا ہوتا کہ وہ اُس کے خلاف بغاوت کرنے کے قابل ہی نہ ہوتے توپھر ہم سب کو اتنا دُکھ نہ سہنا پڑتا۔ لیکن اس صورت میں ہم ایک بہت ہی قیمتی نعمت سے محروم رہتے جو یہوواہ خدا نے ہم سب کو عطا کی ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نعمت کیا ہے۔
آپ اس نعمت کے لئے شکرگزاری کیسے ظاہر کریں گے؟
۱۹. یہوواہ خدا نے ہمیں کونسی نعمت عطا کی ہے اور ہمیں اس کے لئے شکرگزار کیوں ہونا چاہئے؟
۱۹ جیسا کہ ہم پانچویں باب میں سیکھ چکے ہیں خدا نے انسان کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ خلق کِیا ہے۔ یہ خدا کی طرف سے ایک نہایت ہی قیمتی نعمت ہے۔ خدا نے جانور بھی خلق کئے ہیں لیکن جانور انسان کی طرح سوچسمجھ کر فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح انسان نے کئی مشینیں ایجاد کی ہیں۔ لیکن یہ مشینیں اپنی مرضی سے نہیں چل سکتیں بلکہ یہ وہی کام کرتی ہیں جن کے لئے اُنہیں بنایا گیا ہے۔ اگر خدا ہمیں بھی جانوروں اور مشینوں کی طرح بناتا تو کیا ہم واقعی خوش ہوتے؟ جینہیں۔ یہ کتنی خوشی کی بات
ہے کہ خدا نے ہمیں فیصلہ کرنے کی آزادی بخشی ہے، مثلاً ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم زندگی میں کونسی راہ اختیار کریں گے، کس قسم کا چالچلن اپنائیں گے، کس کے ساتھ دوستی قائم کریں گے وغیرہ، وغیرہ۔ ہم خدا کے کتنے شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہمیں فیصلہ کرنے کی آزادی عطا کی ہے۔۲۰، ۲۱. سب سے اچھا فیصلہ جو آپ کر سکتے ہیں وہ کیا ہے؟ ہمیں اچھے فیصلے کیوں کرنے چاہئیں؟
۲۰ یہوواہ خدا یہ نہیں چاہتا کہ ہم اُس کی خدمت صرف اس لئے کریں کیونکہ ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کِیا جا رہا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۹:۷) اس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ جب ایک بچہ اپنے والد کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہتا ہے: ”ابو مَیں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں“ تو والد خوش ہوتا ہے۔ لیکن کیا والد تب بھی خوش ہوگا اگر اُسے پتہ چلے کہ بچے کو یہ کہنے پر مجبور کِیا گیا ہے؟ جینہیں۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ خود فیصلہ کرنے کی اپنی صلاحیت کو کیسے کام میں لائیں گے؟ آدم، حوا اور شیطان نے تو اس صلاحیت کو استعمال میں لا کر یہوواہ خدا کو ترک کر دیا۔ لیکن آپ اس سلسلے میں کیا کرنے کا فیصلہ کریں گے؟
۲۱ خدا آپ کو موقع دے رہا ہے کہ آپ اپنی اس صلاحیت کو اچھے فیصلے کرنے کے لئے استعمال میں لائیں۔ سب سے اچھا فیصلہ جو آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ لاکھوں دوسرے لوگوں کے ساتھ یہوواہ خدا کی عبادت کریں۔ یہ لوگ ثابت کر رہے ہیں کہ شیطان جھوٹا ہے اور اُس کی حکمرانی ناکام رہی ہے۔ ایسا کرنے سے وہ یہوواہ خدا کو خوش کر رہے ہیں۔ (امثال ۲۷:۱۱) آپ بھی زندگی میں ایسی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں جس سے خدا خوش ہو۔ یہ کونسی راہ ہے؟ اس بات پر اگلے باب میں غور کِیا جائے گا۔
پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے
▪ خدا دُنیا میں ہونے والی بُرائی اور مصیبتوں کا ذمہدار نہیں۔—ایوب ۳۴:۱۰۔
▪ یہ کہنے سے کہ خدا جھوٹا ہے اور اپنے بندوں کو اچھی چیزوں سے محروم رکھتا ہے شیطان نے خدا کی حکمرانی پر شک ڈالا۔—پیدایش ۳:۲-۵۔
▪ یسوع مسیح خدا کی بادشاہت کا بادشاہ ہے۔ وہ یہوواہ خدا کے حکم پر عمل کرتے ہوئے دُکھ اور تکلیف کو مٹا دے گا۔—۱-یوحنا ۳:۸۔
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۰۷ پر تصویر]
یہوواہ خدا دُنیا پر سے دُکھ اور تکلیف کا نامونشان مٹا دے گا
[صفحہ ۱۱۰ پر تصویر]
کیا طالبعلم اپنے اُستاد سے زیادہ لائق ہو سکتا ہے؟
[صفحہ ۱۱۳ پر تصویر]
خدا آپ کو ہر قسم کی مصیبت اور آزمائش سے نپٹنے میں مدد دے گا