باب 94
دُعا اور خاکساری کی اہمیت
-
بیوہ اور منصف کی مثال
-
فریسی اور ٹیکس وصول کرنے والا
یسوع مسیح پہلے بھی شاگردوں کو ایک مثال دے چُکے تھے جس میں اُنہوں نے اپنی درخواستوں کے بارے میں بار بار دُعا کرنے کی اہمیت کو نمایاں کِیا تھا۔ (لُوقا 11:5-13) اب جبکہ وہ سامریہ یا گلیل میں تھے تو اُنہوں نے دوبارہ سے اِس بات پر زور دیا کہ اُن کے پیروکاروں کو دُعا کرنے میں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔
اِس سلسلے میں اُنہوں نے یہ مثال دی: ”ایک شہر میں ایک منصف تھا جسے نہ تو خدا کا خوف تھا اور نہ ہی لوگوں کی پرواہ۔ اُسی شہر میں ایک بیوہ بھی رہتی تھی۔ وہ بار بار اُس منصف کے پاس جا کر کہتی: ”میرے مخالف نے میرے خلاف مُقدمہ کِیا ہے۔ مجھے اِنصاف دِلائیں۔“ کچھ عرصے کے لیے تو اُس منصف نے بیوہ کی مدد نہیں کی۔ لیکن پھر اُس نے خود سے کہا: ”حالانکہ مَیں خدا سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی کسی کی پرواہ کرتا ہوں لیکن مَیں اِس بیوہ کو ضرور اِنصاف دِلاؤں گا کیونکہ یہ بار بار آ کر مجھے تنگ کرتی ہے ورنہ تو یہ میرا سر کھاتی رہے گی۔““—لُوقا 18:2-5۔
پھر یسوع نے اِس مثال کا سبق سمجھانے کے لیے کہا: ”غور کریں کہ اُس منصف نے کیا کہا حالانکہ وہ بُرا تھا۔ تو پھر کیا خدا اپنے چُنے ہوئے لوگوں کو اِنصاف نہیں دِلائے گا جو دن رات اُس سے اِلتجا کرتے ہیں؟ بلکہ وہ تو اُن کے ساتھ صبر سے پیش آئے گا۔“ (لُوقا 18:6، 7) یسوع مسیح اپنے آسمانی باپ کے بارے میں کیا ظاہر کر رہے تھے؟
وہ یہ ہرگز نہیں کہہ رہے تھے کہ یہوواہ خدا اُس بُرے منصف کی طرح ہے بلکہ وہ تو یہوواہ خدا اور بُرے منصف میں فرق ظاہر کر رہے تھے۔ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اگر بُرا منصف کسی کے بار بار اِصرار کرنے پر اُسے اِنصاف دِلا دیتا ہے تو یہوواہ خدا تو ہر صورت میں ایسا کرے گا۔ یہوواہ نیک اور اچھا ہے اور اپنے اُن خادموں کی دُعاؤں کو قبول کرتا ہے جو دُعا کرنے میں ہمت نہیں ہارتے۔ یہ حقیقت یسوع کی اگلی بات سے ظاہر ہوئی۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ [خدا] اُن کو جلد اِنصاف دِلائے گا۔“—لُوقا 18:8۔
دُنیا میں اکثر دولتمند اور بااِختیار لوگوں کے حق میں فیصلہ کِیا جاتا ہے جبکہ غریبوں اور حاجتمندوں کا حق مارا جاتا ہے۔ لیکن خدا بےاِنصاف نہیں ہے۔ وہ اپنے مقررہ وقت پر بُرے لوگوں کو سزا دے گا اور اپنے خادموں کو ہمیشہ کی زندگی عطا کرے گا۔
مگر کن کا ایمان بیوہ جتنا مضبوط ہوگا؟ اور کتنے لوگ واقعی مانیں گے کہ خدا ”اُن کو جلد اِنصاف دِلائے گا“؟ یسوع مسیح نے ابھی ابھی دُعا کرتے رہنے کی اہمیت کو اُجاگر کِیا تھا۔ مگر یہ بھی بہت ضروری تھا کہ اُن کے شاگرد دُعا کی طاقت پر مضبوط ایمان رکھیں۔ اِس بات کو نمایاں کرنے کے لیے یسوع نے پوچھا: ”جب اِنسان کا بیٹا آئے گا تو کیا وہ زمین پر اِس طرح کا ایمان پائے گا؟“ (لُوقا 18:8) اِس کا مطلب ہے کہ جب مسیح آئے گا تو شاید کم ہی لوگوں میں اِتنا مضبوط ایمان ہوگا۔
جو لوگ یسوع کی باتیں سُن رہے تھے، اُن میں سے کچھ کو یقین تھا کہ اُن کا ایمان بہت مضبوط ہے۔ وہ خود کو تو بڑا نیک سمجھتے تھے لیکن دوسروں کو ناچیز خیال کرتے تھے۔
اُن لوگوں کو یسوع نے یہ مثال دی: ”دو آدمی دُعا کرنے کے لیے ہیکل میں گئے۔ ایک آدمی فریسی تھا جبکہ دوسرا ٹیکس وصول کرنے والا تھا۔ فریسی نے کھڑے ہو کر دل ہی دل میں یہ دُعا کی: ”اَے خدا، مَیں تیرا شکر کرتا ہوں کہ مَیں دوسروں کی طرح لُٹیرا، بُرا اور زِناکار نہیں ہوں اور اِس ٹیکس وصول کرنے والے کی طرح بھی نہیں ہوں۔ مَیں تو ہفتے میں دو بار روزہ رکھتا ہوں اور اپنی ہر چیز کا دسواں حصہ ادا کرتا ہوں۔““—لُوقا 18:10-12۔
فریسی اپنی نیکی کا کُھلے عام مظاہرہ کرنے کے لیے بڑے مشہور تھے۔ وہ دوسروں لُوقا 11:42) کچھ مہینے پہلے اُنہوں نے عام لوگوں کے لیے حقارت ظاہر کرتے ہوئے کہا: ”یہ لوگ جو شریعت کو [یعنی فریسیوں کی طرف سے کی جانے والی شریعت کی تشریح کو] نہیں جانتے، لعنتی ہیں۔“—یوحنا 7:49۔
کو متاثر کرنا چاہتے تھے اِس لیے وہ عموماً سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے جب بہت سے لوگ اُنہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ اِن دنوں میں بازاروں میں بڑا رش ہوتا تھا۔ اِس کے علاوہ وہ چھوٹی سے چھوٹی جڑیبوٹی کا بھی دسواں حصہ (دہیکی) ادا کرتے تھے۔ (یسوع مسیح نے مثال کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ”لیکن ٹیکس وصول کرنے والا دُور ہی کھڑا رہا۔ اُس نے آسمان کی طرف دیکھنے کی جُرأت بھی نہیں کی بلکہ وہ بار بار اپنی چھاتی پیٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ”اَے خدا، مجھ پر رحم کر۔ مَیں بڑا گُناہگار ہوں۔““ اِس آدمی نے بڑی خاکساری سے اپنے گُناہوں کا اِقرار کِیا۔ یسوع مسیح نے مثال کا سبق یہ دیا: ”مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ جب یہ آدمی ہیکل سے نکلا تو وہ خدا کی نظر میں فریسی کی نسبت زیادہ نیک ثابت ہوا کیونکہ جو اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے، اُس کو چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا خیال کرتا ہے، اُس کو بڑا کِیا جائے گا۔“—لُوقا 18:13، 14۔
اِس مثال سے یسوع نے خاکسار بننے کی اہمیت واضح کی۔ یہ اُن کے شاگردوں کے لیے بہت فائدہمند ہدایت تھی کیونکہ جس معاشرے میں اُنہوں نے پرورش پائی تھی، اُس میں فریسی عہدے اور رُتبے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ بےشک یہ ہدایت آج بھی یسوع مسیح کے پیروکاروں کے لیے بڑی کارآمد ہے۔