باب 42
فریسیوں کی ملامت
متی 12:33-50 مرقس 3:31-35 لُوقا 8:19-21
-
یسوع مسیح نے ”یُوناہ والی نشانی“ دی
-
شاگردوں کے ساتھ یسوع کا رشتہ خونی رشتوں سے زیادہ گہرا تھا
جب شریعت کے عالموں اور فریسیوں نے کہا کہ یسوع مسیح بُرے فرشتوں کو شیطان کی مدد سے نکال رہے ہیں تو وہ پاک روح کے خلاف کفر بکنے کے خطرے میں تھے۔ یہ کہنے سے وہ کس کے حامی ثابت ہوئے؟ شیطان کے یا خدا کے؟ یسوع مسیح نے اُن سے کہا: ”آپ لوگ یا تو ایسا درخت اُگا سکتے ہیں جو اچھا ہے اور جس کا پھل بھی اچھا ہے یا پھر ایک ایسا درخت جو خراب ہے اور جس کا پھل بھی خراب ہے کیونکہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔“—متی 12:33۔
ایک آدمی کو بُرے فرشتے کے قبضے سے چھڑا کر یسوع مسیح اچھا پھل لائے تھے۔ اِس اچھے کام کو شیطان سے جوڑنا سراسر بےوقوفی تھا۔ جیسا کہ یسوع نے پہاڑی وعظ میں کہا تھا، اگر پھل اچھا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ درخت بھی اچھا ہے۔ مگر فریسی کیسا پھل لا رہے تھے؟ وہ یسوع پر بےبنیاد اِلزامات لگا رہے تھے جس سے ظاہر ہو گیا کہ وہ خراب درخت تھے۔ اِس لیے یسوع مسیح نے اُن سے کہا: ”سانپ کے بچو! جب تُم بُرے ہو تو اچھی باتیں کیسے کہو گے؟ جو دل میں بھرا ہوتا ہے، وہی زبان پر آتا ہے۔“—متی 7:16، 17؛ 12:34۔
واقعی ہماری باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے اور اِنہی کی بِنا پر ہمارا فیصلہ کِیا جائے گا۔ یسوع مسیح نے کہا: ”مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ عدالت کے دن لوگ اُن سب فضول باتوں کا حساب دیں گے جو وہ زبان پر لاتے ہیں کیونکہ تُم اپنی باتوں سے یا تو نیک ٹھہرائے جاؤ گے یا پھر قصوروار۔“—متی 12:36، 37۔
حالانکہ یسوع مسیح نے اِتنے بڑے معجزے کیے تھے لیکن پھر بھی فریسیوں اور شریعت کے عالموں نے اُن سے کہا: ”اُستاد، ذرا ہمیں ایک نشانی دِکھاؤ۔“ ہو سکتا ہے کہ اِن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے یسوع مسیح کو کوئی معجزہ کرتے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن بہت سے لوگ یسوع کے معجزوں کے چشمدید گواہ تھے۔ اِس لیے یسوع نے اِن مذہبی پیشواؤں سے کہا: ”یہ بُری اور بےوفا پُشت نشانیاں مانگتی ہے لیکن اِسے یُوناہ والی نشانی کے سوا کوئی اَور نشانی نہیں دِکھائی جائے گی۔“—متی 12:38، 39۔
پھر یسوع مسیح نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ”جس طرح یُوناہ نبی تین دن اور تین رات بڑی مچھلی کے پیٹ میں رہے اُسی طرح اِنسان کا بیٹا تین دن اور تین رات زمین کی تہہ میں رہے گا۔“ یُوناہ نبی کو ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا لیکن جب مچھلی نے اُنہیں اُگل دیا تو وہ ایک لحاظ سے زندہ ہو گئے۔ یہ مثال دے کر یسوع مسیح نے اپنے بارے میں پیشگوئی کی کہ وہ فوت ہو جائیں گے اور تیسرے دن زندہ کیے جائیں گے۔ مگر جب یہ واقعہ پیش آیا تو یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں نے ”یُوناہ والی نشانی“ کو رد کر دیا اور توبہ نہیں کی۔ (متی 27:63-66؛ 28:12-15) اِن کے برعکس ’نینوہ کے لوگوں‘ نے یُوناہ نبی کا پیغام سُن کر توبہ کی اور یوں اِس پُشت کو قصوروار ٹھہرایا۔ سبا کی ملکہ نے بھی اِس پُشت کو قصوروار ٹھہرایا کیونکہ وہ سلیمان کی دانشمند باتیں سننے کے لیے بہت دُور سے آئیں۔ پھر یسوع مسیح نے کہا: ”لیکن دیکھیں! یہاں ایک ایسا شخص ہے جو سلیمان سے بھی زیادہ اہم ہے۔“—متی 12:40-42۔
یسوع مسیح نے اِس بُری پُشت کو ایک ایسے آدمی سے تشبیہ دی جس میں سے بُرا فرشتہ نکل گیا تھا۔ (متی 12:45) لیکن چونکہ اُس آدمی نے اپنے ”گھر“ یعنی دلودماغ کو اچھی چیزوں سے نہیں بھرا اِس لیے وہ بُرا فرشتہ دوبارہ سے اُس میں گھس گیا اور اپنے ساتھ اَور سات فرشتوں کو بھی لایا۔ اِسرائیلی قوم کو بھی پاک کِیا گیا تھا اور اِس کی اِصلاح کی گئی تھی لیکن بعد میں اِس قوم نے خدا کے نبیوں کو رد کر دیا، یہاں تک کہ خدا کے بیٹے کی بھی سخت مخالفت کی۔ اِس سے ظاہر ہوا کہ اِسرائیلی قوم کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئی تھی۔
یسوع مسیح ابھی لوگوں سے بات کر ہی رہے تھے کہ اُن کی ماں اور اُن کے بھائی آ کر باہر کھڑے ہو گئے۔ یسوع کے اِردگِرد بیٹھے لوگوں میں سے ایک نے کہا: ”باہر آپ کی ماں اور بھائی کھڑے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“ اِس پر یسوع نے جو کِیا، اِس سے ظاہر ہوا کہ وہ اپنے شاگردوں کو اپنی ماں اور اپنے بہن بھائیوں سے زیادہ عزیز خیال کرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے شاگردوں کی طرف اِشارہ کر کے کہا: ”میری ماں اور میرے بھائی یہ لوگ ہیں جو خدا کا کلام سنتے ہیں اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔“ (لُوقا 8:20، 21) یوں اُنہوں نے واضح کِیا کہ شاگردوں کے ساتھ اُن کا رشتہ خونی رشتوں سے زیادہ گہرا تھا۔ اور واقعی کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ ہمارا رشتہ بڑا تازگیبخش ہے، خاص طور پر اُس وقت جب لوگ ہمارے اچھے کاموں کے لیے ہمیں طعنے دیتے ہیں اور ہم سے بدگمان ہوتے ہیں۔