کیا ہماری موت کا وقت پہلے سے طے ہے؟
پاک کلام کا جواب
نہیں، ہماری موت کا وقت پہلے سے طے نہیں ہے۔ پاک کلام میں اِس عقیدے کی حمایت نہیں کی گئی کہ اِنسان کی تقدیر یا قسمت لکھی ہوئی ہے۔ اِس کی بجائے اِس میں بتایا گیا ہے کہ اِنسان کی موت اکثر کسی ’حادثے‘ کی وجہ سے ہوتی ہے۔—واعظ 9:11۔
کیا پاک کلام میں یہ نہیں لکھا کہ ”مر جانے کا ایک وقت ہے“؟
بالکل لکھا ہے۔ واعظ 3:2 میں لکھا ہے کہ ”پیدا ہونے کا ایک وقت ہے اور مر جانے کا ایک وقت ہے۔ درخت لگانے کا ایک وقت ہے اور لگائے ہوئے کو اُکھاڑنے کا ایک وقت ہے۔“ لیکن اِس آیت کے سیاقوسباق سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں روزمرہ زندگی کے مختلف کاموں کی بات کی جا رہی ہے۔ (واعظ 3:1-8) خدا نے ہماری موت کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں کِیا بالکل ویسے ہی جیسے اُس نے یہ مقرر نہیں کِیا کہ ایک کسان کس خاص منٹ پر پودا لگائے گا۔ دراصل پاک کلام کی اِن آیتوں میں یہ بات واضح کی جا رہی ہے کہ ہمیں روزمرہ کاموں میں اِتنا مگن نہیں ہو جانا چاہیے کہ ہم اپنے خالق کو نظرانداز کرنے لگیں۔—واعظ 3:11؛ 12:1، 13۔
ہم اپنی عمر بڑھا سکتے ہیں
یہ سچ ہے کہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں ہے لیکن اگر ہم اچھے فیصلے کرتے ہیں تو ہم زیادہ عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”دانشمند کی تعلیم حیات [یعنی زندگی] کا چشمہ ہے جو موت کے پھندوں سے چھٹکارے کا باعث ہو۔“ (امثال 13:14) موسیٰ نے بھی بنیاِسرائیل کو بتایا تھا کہ اگر وہ خدا کے حکموں پر عمل کریں تو اُن کی ”عمر دراز“ یعنی لمبی ہو سکتی ہے۔ (اِستثنا 6:2) لیکن اگر ہم لاپرواہی برتتے ہیں یا بُرے کام کرتے ہیں تو ہماری زندگی مختصر ہو سکتی ہے۔—واعظ 7:17۔
یہ سچ ہے کہ ہم جتنے بھی دانشمند یا محتاط ہوں، ہم موت سے بچ نہیں سکتے۔ (رومیوں 5:12) لیکن ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا کیونکہ پاک کلام میں وعدہ کِیا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ’موت نہیں رہے گی۔‘— مکاشفہ 21:4۔