گھریلو زندگی کو خوشگوار بنائیں
جب شوہر اور بیوی کی رائے ایک دوسرے سے فرق ہو
شوہر اور بیوی کی پسند نا پسند، عادتیں اور شخصیت ایک دوسرے سے فرق ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے اُنہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔لیکن بعض معاملے ایسے ہیں جن کی وجہ سے زیادہ بڑے مسئلے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اِن میں سے کچھ کا ذکر نیچے کِیا گیا ہے:
ہم اپنے رشتے داروں کے ساتھ کتنا وقت گزاریں گے؟
ہم پیسے کو کیسے اِستعمال کریں گے؟
ہم بچے پیدا کریں گے یا نہیں؟
اگر آپ اور آپ کا شریکِ حیات کسی معاملے پر فرق فرق رائے رکھتے ہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
اِن باتوں کو ذہن میں رکھیں
ہر بات میں ایک جیسی رائے رکھنا لازمی نہیں۔ جو میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے بالکل موزوں ہوتے ہیں، وہ بھی بعض معاملوں کے حوالے سے فرق فرق رائے رکھتے ہیں، یہاں تک کہ بہت اہم معاملوں کے حوالے سے بھی۔
”میں نے ایسے گھرانے میں پرورش پائی ہے جس میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارتے تھے۔ ہم ہفتے اور اِتوار کو اپنے رشتے داروں سے ملنے جاتے تھے۔ لیکن میرے شوہر کے خاندان کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ اِتنا وقت نہیں گزارتے تھے۔ اِس لیے اِس حوالے سے ہماری رائے فرق فرق ہے کہ ہمیں رشتے داروں کے ساتھ ملنے جلنےُ اور اُن کے ساتھ فون وغیرہ پر بات چیت کرنے میں کتنا وقت صرف کرنا چاہیے۔“—تامارا۔
”میری اور میری بیوی کی پرورش الگ الگ ماحول میں ہوئی ہے جس کی وجہ سے پیسے کو خرچ کرنے کے سلسلے میں ہماری رائے ایک دوسرے سے مختلف تھی۔ شادی کے شروع کے کچھ مہینوں میں اِس معاملے پر چند ایک مرتبہ ہماری بحث ہوئی۔ اِس مسئلے کو حل کرنے میں ہمیں کچھ وقت لگا۔“—ٹائلر۔
بعض معاملوں کے سلسلے میں بیچ کا راستہ نکالنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ساس یا سُسر میں سے کوئی بیمار پڑ سکتا ہے اور اُسے دیکھبھال کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ یا پھر شریکِ حیات میں سے کوئی ایک بچے پیدا کرنے کی خواہش رکھتا ہے جبکہ دوسرا ایسا نہیں چاہتا۔ a
”بچے پیدا کرنے کے حوالے سے میری اور میری بیوی کی کئی بار لمبی چوڑی بات چیت ہوئی۔ میری بیوی کے دل میں بچے پیدا کرنے کی خواہش بڑھتی جا رہی ہے لیکن میری رائے اب بھی پہلے جیسی ہے۔ اِس سلسلے میں ہمیں بیچ کا کوئی راستہ دِکھائی نہیں دے رہا۔“—ایلکس۔
اختلافِ رائے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی شادی ناکام ہو گئی ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اور آپ کا شریکِ حیات کسی اہم معاملے پر متفق نہیں ہوتے تو آپ اپنی بات منوانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں پھر چاہے آپ کو اپنی شادی ہی کیوں نہ توڑنی پڑے۔ لیکن ایسا کرنے سے آپ اپنے احساسات کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہوں گے اور ہر حال میں اپنے شریکِ حیات کا ساتھ نبھانے کے اُس وعدے کو نظرانداز کر رہے ہوں گے جو آپ نے خدا کے سامنے کِیا تھا۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
اپنی شادی کے عہد و پیمان کو نبھانے کا عزم کریں۔ اگر آپ اپنی شادی کے عہد و پیمان کو نبھانے کا عزم کرتے ہیں تو آپ مل کر اپنے مسئلوں کو حل کر سکیں گے۔
پاک کلام کا اصول: ”جسے خدا نے جوڑا ہے، اُسے کوئی اِنسان جُدا نہ کرے۔“—متی 19:6۔
اپنی صورتحال کا جائزہ لیں۔ فرض کریں کہ شریکِ حیات میں سے ایک بچے پیدا کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسرا ایسا نہیں چاہتا۔ اِس سلسلے میں شوہر اور بیوی کو کچھ باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جیسے کہ:
آپ کا شادی کا بندھن کتنا مضبوط ہے؟
کیا آپ دونوں بچے کی پرورش کے دوران آنے والی پریشانیوں سے نمٹ سکیں گے؟
کیا آپ والدین کے طور پر اپنی ذمےداریوں کو نبھا پائیں گے؟
بچے کی ضروریات پوری کرنے میں صرف خوراک ، کپڑے اور گھر فراہم کرنا شامل نہیں ہے۔
آپ کی مالی صورتحال کیسی ہے؟
کیا آپ ملازمت اور باقی ذمے داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کو وقت دے پائیں گے؟
پاک کلام کا اصول: ”فرض کریں کہ آپ میں سے ایک آدمی ایک مینار بنانا چاہتا ہے۔ کیا وہ پہلے بیٹھ کر یہ اندازہ نہیں لگائے گا کہ اُس کے پاس اِسے مکمل کرنے کے لیے کافی پیسے ہیں یا نہیں؟“—لُوقا 14:28۔
مسئلے کے ہر پہلو پر غور کریں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے آپ مسئلے کو کسی حد تک حل کر پائیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ بچے پیدا کریں گے یا نہیں تو شوہر اور بیوی میں سے جو ایسا نہیں چاہتا، وہ خود سے پوچھ سکتا ہے:
”جب مَیں یہ کہتا ہوں کہ مَیں بچے نہیں چاہتا تو کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ مَیں کبھی بھی بچے پیدا کرنا نہیں چاہتا یا مَیں فیالحال ایسا نہیں چاہتا؟“
”کیا مَیں اِس لیے ہچکچا رہا ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ مَیں بچے کی اچھی طرح پرورش نہیں کر پاؤں گا؟“
”کیا مجھے اِس بات کا ڈر ہے کہ میرا شریکِ حیات مجھے نظرانداز کرنے لگے گا؟“
شوہر اور بیوی میں سے جو بچے پیدا کرنے کی خواہش رکھتا ہے، خود سے ایسے سوال پوچھ سکتا ہے:
”کیا ہم والدین کے طور پر اپنی ذمےداریوں کو اُٹھانے کے لیے تیار ہیں؟“
”کیا ہمارے مالی حالات ایسے ہیں کہ ہم بچے کے خرچے پورے کر سکیں؟“
پاک کلام کا اصول: ”جو دانشمندی اُوپر سے آتی ہے، وہ ... سمجھدار ... ہوتی ہے۔“—یعقوب 3:17۔
شریکِ حیات کی رائے کو ماننے کے فائدوں پر غور کریں۔ ہو سکتا ہے کہ دو لوگ ایک ہی منظر کو دیکھ رہے ہوں لیکن اِس کے بارے میں اُن کی سوچ ایک دوسرے سے فرق ہو۔اِسی طرح کسی معاملے کے بارے میں ایک شوہر اور بیوی کی رائے ایک دوسرے سے فرق ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر پیسے کو خرچ کرنے کے حوالے سے اُن کی سوچ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے۔ لہٰذا جب آپ ایسے کسی معاملے پر بات چیت کرتے ہیں تو پہلے اِس کے اُن پہلوؤں پر بات کریں جن پر آپ دونوں متفق ہیں۔
ایک معاملے کے حوالے سے آپ دونوں کس بات پر متفق ہیں؟
ایک دوسرے کی رائے کو ماننے کے کیا فائدے ہیں؟
اپنی شادی کے بندھن کو مضبوط رکھنے کے لیے کیا آپ میں سے کوئی ایک یا آپ دونوں اپنی سوچ کو بدل سکتے ہیں؟
پاک کلام کا اصول: ”ہر شخص اپنے فائدے کا نہیں بلکہ دوسروں کے فائدے کا سوچے۔“—1-کُرنتھیوں 10:24۔
a ایسے اہم معاملوں کے بارے میں شادی سے پہلے بات چیت کی جانی چاہیے۔ لیکن بعض اوقات حالات اچانک بدل سکتے ہیں یا وقت کے ساتھ ساتھ شریکِ حیات میں سے کسی ایک کی سوچ بدل سکتی ہے۔—واعظ 9:11۔